1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرين کے ليے چوٹی کی جرمن کمپنيوں ميں ملازمت کے مواقع

عاصم سليم14 اگست 2016

جرمنی ميں گزشتہ برس ايک ملين سے زائد مہاجرين کی آمد کو کاروباری حلقوں ميں مثبت انداز سے ديکھا گيا۔ کئی کمپنياں مہاجرين کے انضمام اور انہيں تربيت فراہم کرنے کے ليے کوشاں ہيں تاکہ انہيں جلدازجلد معيشت کا حصہ بنايا جا سکے۔

https://p.dw.com/p/1Ji45
تصویر: picture-alliance/dpa/Jan Woitas

عمار الخولی کبھی خواب ديکھا کرتا تھا کہ وہ لگژری کار پورشے کا مالک بنے گا۔ گو کہ يہ شامی پناہ گزين اپنا پورشے خريدنے کا خواب تاحال تو پورا نہيں کر پايا ليکن اس کے تصور تک ميں نہ تھا کہ اسے پورشے بنانے والی جرمن کمپنی ميں باقاعدہ تربيت حاصل کرنے کا موقع مل سکے گا۔ جرمن شہر اشٹٹ گارٹ ميں قائم پورشے کمپنی نے مہاجرين کے انضمام ميں مدد فراہم کرنے سے متعلق مارچ ميں شروع کردہ اپنی ايک اسکيم کے تحت انيس سالہ عمار سميت پاکستان، اريتريا، ايران، عراق اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے بارہ ديگر مہاجرين کو تربيت کا موقع فراہم کيا تھا۔

اس پروگرام ميں شرکاء کو تیکنيکی تربيت کے علاوہ جرمن زبان، ملکی تاريخ و ثقافت اور کاروباری معاملات سے بھی آگاہ کيا جاتا ہے۔ ساتھ ہی تربيت حاصل کرنے والے ہر فرد کو ماہانہ ڈھائی سو يورو کی تنخواہ بھی دی جاتی ہے۔

پورشے ميں تکنيکی ٹريننگ کے شعبے کے ڈائريکٹر نوربرٹ گوگرل کے مطابق اس اسکيم کے ذريعے کمپنی يہ دکھانا چاہتی ہے کہ جرمنی ميں نئے آنے والوں کو کس طرح خوش آمديد کہا جاتا ہے اور اس ليے بھی تاکہ لوگوں کو جلد از جلد خود کو منوانے کا موقع ملے۔

عمار الخولی کو پانچ ماہ کی تربیت کے خاتمے پر اب پورشے نے تين سال کی باقاعدہ ٹریننگ کا کانٹريکٹ دے ديا ہے۔ وہ اب ’ميکاٹرانکس ٹيکنيشيئن‘ کے طور پر تربيت حاصل کرے گا يعنی گاڑی کے انجن کے تمام پرزے کھولنے اور انہيں دوبارہ جوڑنے کی تربيت۔ دو برس قبل جب عمار جرمنی آيا تھا، تو اس وقت اس کے وہم و گمان تک ميں نہ تھا کہ اسے ايسا موقع مل سکے گا۔ وہ بالکل جرمن زبان نہيں جانتا تھا ليکن اب جرمن زبان بھی سیکھ چکا ہے۔ اپنی داستان بيان کرتے ہوئے وہ بتاتا ہے، ’’ميں جرمنی پناہ کے ليے اس وجہ سے آيا کيونکہ شام ميں صورتحال کافی خراب تھی اور وہاں زندگی گزارنا ممکن نہيں تھا۔‘‘

عمار کے بقول اب اس کے دوست احباب کہتے ہيں کہ پورشے ميں موقع ملنا خوش قسمتی کی بات ہے اور اسے اس موقع کا مکمل فائدہ اٹھانا چاہيے۔ پورشے کو جرمنی ميں نہ صرف داخلی سطح پر بلکہ بين الاقوامی سطح پر بھی معيار کی علامت اور چوٹی کی کمپنی مانا جاتا ہے۔

Symbolbild zu Deutschland Geschäftsklimaindex
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas

پورشے کے اس پروگرام ميں ايک اٹھارہ سالہ پاکستانی پناہ گزين لڑکی زرياب عمران بھی شامل ہے۔ زرياب کے بقول وہ پاکستان ميں محفوظ نہيں تھی اور اسی ليے اس نے ہجرت کا فيصلہ کيا۔ اسے پورشے گاڑی کے اندرونی حصے ميں چمڑے کی مصنوعات ميں دلچسپی کے مظاہرے پر ابتدائی تربيت کے بعد طويل المدتی تربیت کے ليے چنا گیا ہے۔

يورپ کی سب سے بڑی معشت کے حامل ملک جرمنی ميں ’عمر رسيدہ‘ ليبر فورس يا آبادی کی زيادہ اوسط عمر ايک مسئلہ تصور کی جاتی ہے۔ اس تناظر ميں گزشتہ برس ايک ملين سے زيادہ پناہ گزينوں کی آمد کو کاروباری لحاظ سے مثبت ليا گيا۔

تاہم مہاجرين کو روزگار کی منڈی کا حصہ بنانا آسان کام بھی نہيں۔ انہيں ملازمت کا اہل بنانے کے ليے سالہا سال کی تربيت اور زبان سکھانے کا عمل درکار ہے۔ اسی سبب متعدد بڑی کمپنيوں نے اپنے طور پر ايسی اسکيميں اور پروگرام شروع کر رکھے ہيں جن کے ذريعے اعلیٰ تعليم و تربيت يافتہ اور ہنر مند مہاجرين کو مواقع فراہم کيے جا سکيں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں