1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی، کچھ عجائب گھروں میں شامی مہاجرین گائیڈ

عاصم سليم18 دسمبر 2015

برلن ميوزيم آف اسلامک آرٹ ميں کچھ پناہ گزينوں کو گائیڈ کی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے تربيت دی جا رہی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ وہ بطور گائیڈ عجائب گھر آنے والوں کو وہاں رکھی تاريخی چيزوں کے بارے ميں بنیادی معلومات فراہم کر سکیں۔

https://p.dw.com/p/1HQ0T
تصویر: Staatliche Museen Berlin, Museum für Islamische Kunst

ويسے تو برلن ميوزيم آف اسلامک آرٹ ميں رکھی زيادہ تر چيزوں پر عربی زبان ہی لکھی ہوئی ہے تاہم يہ زبان اس ميوزيم ميں زیادہ بولی اور سمجھی نہيں جاتی۔ ليکن اب ايسا معلوم ہوتا ہے کہ يہ بدلنے والا ہے۔ يہ عجائب گھر شہر کے تين ديگر عجائب گھروں کی طرح تارکين وطن کو ميوزيم کے ’گائيڈ‘ بننے کی تربيت فراہم کر رہا ہے تاکہ وہ عربی زبان ميں درج ہدايات اور تفصيلات کے بارے ميں وہاں آنے والوں کو مطلع کر سکيں اور يوں خود کو کارآمد بھی بنا سکيں۔

ميوزيم آف اسلامک آرٹ کے ڈائريکٹر اسٹيفان ويبر نے کہا ہے کہ جرمن معاشرے کا حصہ بننے کے ليے تارکین وطن کو سخت محنت کرنا ہو گی۔  مہاجرين کو تربيت فراہم کرنے سے متعلق اس منصوبے کا حصہ بننے کے بارے ميں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’جب آپ کا سب کچھ کھو چکا ہو، تو کم ازکم آپ کو اپنی ثقافتی شناخت نہيں کھونا چاہيے۔‘‘

اسی ہفتے بدھ کے روز قريب ايک درجن شامی مہاجرين نے عجائب گھر کا دورہ کيا۔ ان کی رہنما ايک شامی آرکيٹيکٹ زويا مسعود تھيں، جنہوں نے ميوزيم ميں موجود چيزوں کے ڈيزائنز کی وضاحت کرتے ہوئے سمجھايا کہ کس طرح ثقافتی اور فنی اثرات اسلامی تاريخ کا حصہ رہے ہيں۔ پناہ گزينوں کو اس بارے ميں تربيت دينے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مسعود نے کہا، ’’ان کے رد عمل نے ميرے دل کو چھو ليا۔‘‘

زويا مسعود کے اس تربيتی پروگرام کے ليے رقوم پبلک اور سرکاری فنڈز سے مہيا کی جاری ہيں۔ منتظمين کی کوشش ہے کہ اس تربيتی پروگرام کی مدد سے چند ايک مہاجرين کو اس ملک ميں اپنی جگہ بنانے ميں مدد فراہم کی جا سکے۔ زويا مسعود کہتی ہيں، ’’يہ انہيں ابتدائی طور پر خوش آمديد کہنے کا ايک طريقہ ہے تاکہ وہ الجھنوں سے بھری اپنی زندگيوں سے کچھ وقت کے ليے نکل سکيں۔‘‘ ان کے بقول دوسرے مرحلے ميں ان کے انضمام پر کام کيا جانا ہے۔

عجائب گھر ميں تربيت کے اس پروگرام کو عربی زبان کے لفظ ’ملتقاء‘ کا نام ديا گيا ہے، جس کا مطلب ملنے کا مقام ہے۔ اس پروگرام کا نام جرمن کی بجائے عربی زبان ميں رکھا جانا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ جرمنی ميں ماضی ميں تارکين وطن کے ساتھ کی جانے والی غلطياں دہرائی نہيں جا رہيں۔ ميوزيم کے ڈائريکٹر نے بتايا، ’’يہ ہمارے ليے اہم ہے کہ يہ لوگ اس بات کو سمجھيں کہ يہاں ان کی قدر ہے۔‘‘