1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی کی افریقہ پالیسی

8 مارچ 2009

براعظم افریقہ میں امن فوج اور پولیس کی تربیت سے لے کر، سرحدی حدود کی تعین تک جرمنی کا کردارانتہائی اہم رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/H853
تصویر: picture-alliance / dpa

جرمن دارلحکومت برلن میں یہ بات ایک بارپھرسننے میں آئی کہ تنازعات کی روک تھام اور دیرپا امن کی بحالی کو براعظم افریقہ سے متعلق جرمن سیاست میں سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اس موقع پرافریقی یونین کے امن و سلامتی کے کمشنرRamtane Lamamra بھی موجود تھے جنہوں نے سیاسی نمائندوں کے ساتھ اپنی ملاقاتوں میں افریقی ممالک میں سلامتی کے شعبے میں ہونے والی پیش قدمی کے بارے میں بتایا۔

افریقہ میں امن کی بحالی کا مطلب یہ نہیں کہ باغیوں سے ہتھیار واپس لے لئے جائیں یا افریقی یونین کے فوجیوں کو کسی بحران زدہ ملک میں بھیج دیا جائے۔ افریقی یونین میں امن و سلامتی کے امور کے کمشنرRamtane Lamamra کے مطابق افریقہ میں دیرپا امن کی بحالی اورتنازعات کا خاتمہ اسی وقت ممکن ہے جب عام شہریوں میں غربت کا خوف ختم ہو جائے، تعلیمی شعبہ ترقی کرے اورعلاج معالجے کی یکساں سہولیات بھی موجود ہوں۔ مختصر یہ کہ بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری کی جائے۔

Ramtane Lamamra کہ مطابق ’ سلامتی کی اصطلاح کو وسیع ترانداز میں دیکھنا ہو گا۔ یہاں بات امن و سلامتی کے ساتھ ساتھ تنازعات کی روک تھام سے لے کر تنازعات کے بعد تعمیرنو تک کی ہے۔ یعنی بات دراصل افریقہ میں اشتراک عمل ، مزید ترقی اور معاشرتی انضمام کی ہے‘

Deutschland Berlin Fachtagung Im Dialog mit Afrikas Eliten
برلن میں گذشتہ دنوں ہونے والی افریقہ کانفرنس کا منظرتصویر: DW

یہی وجہ ہے کہ افریقی ممالک نے ایک دوسرے کے داخلی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا اپنا اصول بھی تبدیل کر دیا ہے۔ اب جہاں بھی انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کا معاملہ سامنے آتا ہے، افریقی یونین ان کی روک تھام کے لئے فوری اقدامات کرتی ہے۔ افریقی یونین کی امن اور سلامتی سے متعلق مشاورتی کونسل مختلف ملکوں میں فوجی دستو‌ں کی تعیناتی کا فیصلہ کرتی ہے اور یہ کونسل بھی Ramtane Lamamra کے زیر سایہ کام کررہی ہے۔

اس مشاورتی کونسل کو عالمی بینک اور یورپی یونین کا تعاون بھی حاصل ہے جن کی مدد کے بغیر افریقی یونین قیام امن کے سلسلے میں اپنے ارادوں پرعمل درآمد تو کیا، شدید مالی دباؤ کا شکار بھی ہو جائے گی۔ اس لئے کہ افریقی یونین کے مسلح دستے آج بھی ہتھیاروں اور جدید سازوسامان کی کمی کا شکار ہیں۔ مثلا یوگنڈا اور برونڈی میں یونین نے اپنے فوجی تو بھیجے ہیں لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔ Lamamra نے اس بارے میں کہا کہ افریقی ممالک کودرپیش یہ مشکلات اپنی جگہ لیکن ان کو اپنا یہی کردار زیادہ سے زیادہ حد تک خود ادا کرسکنے کی سوچ اپنانا ہو گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ افریقی ریاستوں کو اس امر کو ضروری اہمیت دینا ہو گی کہ یونین کے منصوبوں کے لئے مالی وسائل کی فراہمی بنیادی طور پرخود انہی کا فرض ہے۔ دوسری اہم بات یہ کہ افریقی یونین جتنی زیادہ فعال ہو گی، اتنا ہی افریقی ملکوں کی ذمے داریوں میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا۔

Horst Köhler in Ruanda
جرمن صدر ہورسٹ کوئلر روانڈا میں اسکول کے بچوں کے ساتھتصویر: picture-alliance/ dpa

افریقی ملکوں کا ایک بڑا مسئلہ دہشت گردی بھی ہے۔ Ramtane Lamamra کہتے ہیں کہ افریقہ میں دہشت گردی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور دہشت گردی کے رجحانات پر قابو پانے کے لئے افریقی یونین نے اپنی ایک نئی حکمت عملی بھی تیار کی ہے۔

اس سلسلے میں ایک ایسی فورس تیار کی جائے گی جس میں پولیس کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کو بھی شامل کیا جائے گا اور یہ فورس اگلے سال سے باقاعدہ کام کرنے کے قابل ہو جائے گی۔