1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی کی جانب سے یونان کے لئے امداد کی منظوری

4 مئی 2010

گو چند روز پہلے ہی جرمن چانسلر انگيلا ميرکل نے کہا تھا کہ يونان کو مالی مدد دينے کی ضرورت پيش نہيں آئے گی تاہم یورو کے استحکام کے لئے يورپی یونین نے يونان کو اربوں کی امداد دينے کا فيصلہ کيا ہے۔ ڈوئچے ویلے کا تبصرہ۔

https://p.dw.com/p/NDz1
یونان کے لئے امداد: جرمن کابینہ کا اجلاستصویر: AP

ڈوئچے ویلے کے تبصرہ نگار کرسٹوف ہازلباخ لکھتے ہیں:’’حيرت انگيز بات ہے کہ یونان کے لئے امداد کے اس آخری حل کی ضرورت اس قدر جلد ہی پڑ گئی ہے۔ اب جرمنی اور دوسرے يورپی ممالک کو چار و ناچار يونان کو اربوں کی رقوم دينا ہی پڑیں گی۔ پیر کو جرمن کابينہ نے ايک خصوصی اجلاس ميں يونان کو يورپی يونين اور عالمی مالياتی فنڈ کی طرف سے دی جانے والی امداد کے دائرے ميں، جرمنی کی جانب سے 22 ارب يورو کی مدد کی منظوری دے دی۔

Proteste in Athen Griechenland
یونان کے عوام حکومت کے سخت بچتی اقدامات کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور پولیس کے ساتھ تصادم کے واقعات بھی اب ایک معمول بنتے جا رہے ہیںتصویر: AP

يہ بالکل ظاہر ہے کہ يورپی ممالک، خاص طور پر موجودہ نازک وقت ميں اس اضافی بوجھ پر برہم ہيں۔ يونان پچھلے کئی عشروں سے اپنی گنجائش سے زيادہ خرچ کر رہا ہے۔ اُس نے بار بار اپنی اقتصادی حالت کے بارے ميں اعداد و شمار ميں جعلسازی کی ہے تاکہ اُس کی مالی اور معاشی حالت کا صحيح اندازہ کسی کو بھی نہ ہو سکے اور وہ اُس سے بہتر نظر آئے جتنی کہ وہ دراصل ہے۔ اِنہی غلط اعداد و شمار کی بنياد پر يونان، يورپی مالياتی يونين ميں داخل ہو سکا ہے۔ اب، يورپی مالی يونين کے دوسرے ممالک کو يونان کی بھنور میں گھری کشتی کو طوفان سے نکالنا پڑ رہا ہے۔ سوال يہ ہے کہ ايسی صورت ميں، آئندہ بحرانوں کے خطرے سے دوچار آئرلينڈ، پرتگال اور اسپين کس طرح اپنی اقتصادی اور معاشی حالت کو بہتر بنانے پر آمادہ ہو سکتے ہيں کيونکہ اب وہ جانتے ہوں گے کہ بوقت ضرورت دوسرے ممالک کو اُنہيں دشواريوں سے نکالنا ہی پڑے گا۔

يونان کی جو اپنی غلطياں ہيں وہ تو ہيں ہی، ليکن يہ بھی حقيقت ہے کہ يورپی کميشن اور يورو زون کے دوسرے ممالک ايک عرصے تک صحيح معنوں ميں يہ جاننا ہی نہيں چاہتے تھے کہ يونان کی حقيقی اقتصادی حالت کيا تھی۔ يہی نہيں، بلکہ جس عرصے کے دوران يونان بے تحاشہ قرضے لے رہا تھا اُس دوران خاص طور پر جرمنی اپنی مصنوعات دھڑا دھڑ اور بڑی مقدار ميں يونان کو بھی برآمد کر رہا تھا۔ يورو کو مستحکم رکھنے کی ضرروت خاص طور پر جرمنی ہی کو ہے کيونکہ اس کی ساری اقتصادی عمارت يورو ہی پرکھڑی ہے۔

Deutschland Kabinett in Berlin zu Griechenland Wolfgang Schäuble
پیر 3 مئی کو کابینہ کے خصوص اجلاس میں شریک جرمن وزیر مالیات وولف گانگ شوئبلےتصویر: AP

تاہم يونان کے لئے صرف ايک امدادی منصوبہ ہی کافی نہيں ہوگا۔ يورپی يونين اور اُس کی حدود سے بڑھ کر بھی اقتصادی اور مالی ڈھانچے ميں اصلاحات کے بغير اگلے بحران کو پيدا ہونے ميں کچھ زیادہ وقت نہيں لگے گا۔ کيا وجہ ہے کہ مالياتی منڈيوں کی زيادہ کڑی نگرانی کے سلسلے ميں ابھی تک مشکل ہی سے کوئی پيش رفت ہوسکی ہے؟ کيا وجہ ہے کہ بعض ايجنسياں، اپنے مالی اور اقتصادی اندازوں کی بنياد پر پوری کی پوری قومی معيشتوں کی خوشحالی يا بدحالی کے بارے ميں فيصلے صادر کرسکتی ہيں؟ آخر ٹيکس دہندگان کيوں بينکوں کو ديواليہ ہونے سے بچائيں۔ کيا اس لئے کہ يہ بينک رياستوں کے خلاف اپنے سٹہ بازی کے کاروبار کو پہلے ہی کی طرح زور شور سے جاری رکھيں؟ ايسا معلوم ہوتا ہے کہ اپنے مفاد کی حفاظت کے لئے مالياتی شعبے کی لابی پہلے کی طرح اب بھی بہت کامياب ہے۔

يورو زون کے اندر بھی تبديليوں کی ضرورت ہے۔ مالياتی يونين کا قيام پہلے درجے پر ايک سياسی فيصلہ تھا اور يہ صرف دوسرے درجے ہی پر ايک اقتصادی اقدام تھا۔ اس کے علاوہ مالی يونين کا قيام ايک ايسے وقت ہوا تھا، جب حالات بہت اچھے اور سازگار تھے۔ اس وقت جب طوفان آيا ہوا ہے اور جو ابھی لمبے عرصے تک برپا رہے گا، مشکل ہی سے کسی کو يورپی کرنسی اور اقتصاديت کے استحکام کی پرواہ ہے۔ مستقبل ميں يورو زون کے ممالک کے درميان معلومات کے تبادلے کو بہت بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ کسی بحران کے آثار نمودار ہوتے ہی بر وقت تدارک کے اقدامات کئے جا سکيں۔ اس کے علاوہ يورو زون ميں شامل ممالک کی معيشت کو زيادہ قريبی طور پر ايک دوسرے سے مربوط اور پيوست ہونا چاہيے۔ مزيد يہ کہ اگرچہ فی الوقت اسے شجر ممنوعہ سمجھا جا رہا ہے ليکن آئندہ کسی بحران کی زد ميں آئے ہوئے ملک کو مالياتی يونين يعنی يورو زون سے کچھ عرصے کے لئے علٰيحدہ کر دينا بھی ممکن ہونا چاہيے۔

يورپی يونين نے مالياتی بحران کے پہلے مرحلے کو نسبتاً اچھی طرح سے طے کر ليا ہے کيونکہ اُس نے اجتماعی طور پر اور عزم کے ساتھ اقدامات کيے ہيں۔ تاہم اُسے اس بحران سے بہت کچھ سيکھنے کی بھی ضرورت ہے۔‘‘

رپورٹ: کرسٹوف ہازلباخ / شہاب احمد صدیقی

ادارت: عدنان اسحاق