1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی کے شریبر گارڈن اور سماجی انضمام کا عمل

24 جولائی 2009

جرمنی میں یہ روایت سو سال سے زیادہ پرانی ہے کہ عام شہری چھوٹے چھوٹے باغ کرائے یا پٹے پر لے کر باغبانی کرتے ہیں جو Schreber گارڈن کہلاتے ہیں۔ آسٹریا اور سوئٹزرلینڈ میں ایسے باغات کو ہوم گارڈن یا فیملی گارڈن بھی کہتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/IwG3
مجموعی طور پر یورپ میں فیملی گارڈن آج اتنے مقبول ہو چکے ہیں کہ ان کی مجموعی تعداد کئی ملین بنتی ہےتصویر: DW

جرمنی میں کرائے پر یا پھر طویل مدت کے لئے پٹے پر حاصل کئے جانے والے باغات شریبر گارڈن اس لئے کہلاتے ہیں کہ اس روایت کی ابتداء یوں تو 19 ویں صدی کے وسط میں ہی ہو گئی تھی مگر ایسے باغات کو ایک منظم روایت کی شکل جرمنی کے مشرقی حصے کے شہر لائیپزگ کے ایک ڈاکٹر نے دی تھی جن کا نام Moritz Schreber تھا۔

آج جرمنی میں زیادہ تر بڑے شہری علاقوں یا ان کے نواح میں ایسے ایک ملین سے زائد باغات موجود ہیں جن کا مجموعی رقبہ 50 ہزار ہیکٹر سے زیادہ بنتا ہے۔ جرمن باشندوں کی روزمرہ زندگی میں فیملی گارڈن اتنے اہم ہو چکے ہیں کہ ان سے متعلق جملہ قواعد و ضوابط کا احاطہ کرنے والا ایک ایسا قانون بھی موجود ہے، جو چھوٹے باغات سے متعلق وفاقی قانون کہلاتا ہے۔

سمال گارڈن میوزیم

جنوبی جرمن صوبے باویریا کے شہر نیورین بیرگ میں تو کافی بڑے رقبے پر ایک ایسا عجائب گھر بھی قائم ہے جو "سمال گارڈن میوزیم" کہلاتا ہے اور جس کا انتظام نیورین بیرگ میں چھوٹے باغات کے مالکان کی شہری تنظیم چلاتی ہے۔

مجموعی طور پر یورپ میں فیملی گارڈن آج اتنے مقبول ہو چکے ہیں کہ ان کی مجموعی تعداد کئی ملین بنتی ہے۔ یورپی سطح پر باغبانی کے شوقین ایسے شہریوں نے اپنی ایک بین الاقوامی فیڈریشن بھی قائم کر رکھی ہے جس کے اراکین کی تعداد تین ملین سے زیادہ ہے۔

تاریخی پس منظر

آج کے جرمن معاشرے میں شریبر گارڈن بالکل اسی طرح سے روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکے ہیں جیسے کھیلوں میں فٹ بال، پینے کے لئے بیئر یا تفریح کے لئے تعطیلات۔ قریب ڈیڑھ سو سال قبل جب ایسے فیملی باغات کا استعمال شروع ہوا تھا، تو وجہ صرف فطرت سے قربت نہیں تھی۔ تب سماجی طور پر کم وسائل والے خاندانوں نے ایسا اس لئے کرنا شروع کیا تھا کہ ایسے باغات میں اپنے لئے خود سبزیاں اور پھل اگا سکیں۔ یہ حقیقت خاص طور پر دوسری عالمی جنگ کے بعد تباہ شدہ جرمن ریاست میں واضح طور پر دیکھنے میں آئی تھی۔

Schrebergarten
آج کے جرمن معاشرے میں شریبر گارڈن روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکے ہیںتصویر: DW

اب لیکن ایسے باغات ایک سماجی ضرورت بن چکے ہیں، جن میں بزرگ شہریوں کے علاوہ نوجوان شادی شدہ جوڑے اپنے بچوں کے ہمراہ بہت زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ جرمن شہر بون میں Am Ennert کہلانے والا ایک ایسا زرعی پارک قائم ہے جو بہت سے چھوٹے چھوٹے باغات پر مشتمل ہے۔

فطرت سے قربت

گرمیوں کے موسم میں اس پارک میں سبھی کچھ دیکھنے کو ملتا ہے۔ پرنم زمین، رنگ برنگے پھول، چھوٹی چھوٹی کیاریوں میں اگائی گئی سبزیاں، جگہ جگہ نظر آنے والے پھلوں کے درخت اور چاروں طرف دکھائی دینے والے وہ سبز پودے جن میں سے ہر کسی کی بھر پور دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ بون کا یہ شریبر گارڈن فطرت سے قربت کا بہترین موقع پیش کرتا ہے۔ اسی لئے وہاں ہر طرف مختلف قسموں کے پرندے چہچہاتے نظر آتے ہیں اور شوقیہ باغبان بھی اتنے خوش رہتے ہیں کہ وہاں کام کے عام دنوں میں بھی ہر طرف باغبانی کی جا رہی ہوتی ہے۔

کرائے پر لئے گئے اس فیملی گارڈن میں کام کرنے والوں میں 71 سالہ گُنٹر مالورنی بھی شامل ہیں۔ وہ کئی سال تک جرمن بحریہ کے ایک افسر کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔ انہوں نے اپنے زندگی میں بہت سے ملک دیکھے اور بہت سے سیاسی اور فوجی بحران بھی۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ انہیں سکون صرف اپنے اس فیملی گارڈن ہی میں ملتا ہے۔

"میں نے سوچا کہ زمین کا ایک ایسا ٹکڑا حاصل کیا جائے، جس کے ذریعے ذاتی طور پر باغبانی کرتے ہوئے میں اپنے اہل خانہ کے لئے سبزیاں اور پھل اگا سکوں۔ میں چاہتا تھا کہ ہم جو آلو استعمال کریں، وہ میں خود اگاؤں۔ میرا تعلق جرمن باشندوں کی اس نسل سے ہے جس نے دوسری عالمی جنگ کے بعد کا تکلیف دہ دور بھی دیکھا ہے۔"

کامیابی کا منفرد احساس

گُنٹر مالورنی کا خاندان یہ فیملی گارڈن گذشتہ 31 برسوں سے استعمال کر رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس شریبر گارڈن میں کسی کی محنت ضائع نہیں ہوتی۔ تعمیری مصروفیت کی وجہ سے انسان خوش رہتا ہے اور اس باغ سے حاصل ہونے والی پھلوں اور سبزیوں کی ہر فصل انہیں کامیابی کا ایک منفرد احساس دیتی ہے۔

"ہم نے اپنے باغ میں آلو بیجے، لیکن قریبی باغات کی وجہ سے آلوؤں کی فصل کے بیچ میں گلاب کے بہت سے پودے بھی نمودار ہونے لگے۔ پھر جب یہ پودے بڑے ہوئے تو ان پر لگنے والے گلاب کے پھول ہم نے اپنے دوستوں اور ہمسایوں کو تحفے میں دے دئے۔ ہمارے باغ میں سٹرابیری، راسپ بیری، اور بلُو بیری کے بہت سے پودے بھی ہیں۔ میری بیوی نے چند دن پہلے ان پھلوں کا jam بنایا تو پچاس بوتلیں تیار ہوگئیں، جو سال بھر سے بھی زیادہ عرصے تک ناشتے میں استعمال کی جائیں گی۔ اس باغ میں سبھی کچھ موجود ہے۔"

بون کے اس فیملی گارڈن پارک میں کل 108 شریبر گارڈن موجود ہیں۔ ان میں سے ہر کسی کا رقبہ تقریبا 200 مربع میٹر سے لے کر 400 مربع میٹر تک بنتا ہے اور یہ باغات پٹے پر لے کر وہاں باغبانی کرنے والوں نے اپنی ایک باقاعدہ تنظیم بھی قائم کررکھی ہے، جس کے صدر گُنٹر مالورنی ہیں۔

Schrebergarten in Köln
اس پارک میں کوئی باغ پٹے پر دیتے وقت ایسے خاندانوں کو ترجیح دی جاتی ہے جن کے بچوں کی عمریں تین اور دس برس کے درمیان ہوںتصویر: DW

تارکین وطن کا سماجی انضمام

اس پارک میں کوئی باغ پٹے پر دیتے وقت ایسے خاندانوں کو ترجیح دی جاتی ہے جن کے بچوں کی عمریں تین اور دس برس کے درمیان ہوں۔ جرمنی کے دوسرے بہت سے شہروں میں قائم فیملی گارڈن پارکس کی طرح بون کے Am Ennert میں بھی جن لوگوں نے شریبر گارڈن کرائے پر لے رکھے ہیں، ان میں مقامی جرمن باشندوں کے علاوہ تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے۔

ان غیر ملکیوں کا تعلق ترکی، قاذخستان، بلغاریہ، ایسٹونیا، روس، جارجیا اور ایشیا کے بہت سے ملکوں سے ہے۔ انہی میں سے ایک Rüb خاندان بھی ہے جس نے اس پارک میں ایک باغ دو سال قبل کرائے پر لیا تھا۔ Natalie Rüb کئی سال پہلے نو برس کی عمر میں قاذخستان سے آ کر اپنے اہل خانہ کے ہمراہ جرمنی میں آباد ہوئی تھیں۔ ان کے شوہر کا تعلق جارجیا سے ہے۔

نتالی ریُوب کہتی ہیں: "ہماری ایک چھوٹی سی بیٹی بھی ہے اور فیملی گارڈن کے طور پر استعمال کر سکنے کے لئے ہمارے پاس اس باغ کے علاوہ کوئی دوسرا امکان موجود ہی نہیں ہے۔ گرمیوں میں یہاں باغبانی کرنا بہت اچھا ہوتا ہے۔ ہم اپنا موبائل سوئمنگ پول بھی استعمال کرسکتے ہیں اور سورج کی دھوپ سے لطف اندوز بھی ہو سکتے ہیں۔ ہم بالکل مطمئن ہیں۔"

فطرت کی قومیتوں سے لاتعلقی

بون کے اس شریبر گارڈن پارک میں شوقیہ باغبانی کرنے والوں میں سے آدھے سے زیادہ افراد کا تعلق سماجی طور پر تارکین وطن کے پس منظر والے گھرانوں سے ہے اور یہ کوئی اتفاق نہیں ہے۔ گذشتہ 31 برسوں سے Am Ennert میں گارڈننگ کرنے والے گُنٹر مالورنی اس پارک میں باغبانی کرنے والوں کی تنظیم کے صدر کی حیثیت سے کہتے ہیں:

"اپنے اپنے ملکوں سے ترک وطن کرکے آنے والےغیر ملکی جرمن معاشرے میں اپنے لئے ایک نئی زندگی کے آغاز کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ ایسے انسانوں کی سماجی انضمام کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لئے فیملی گارڈن سے بہتر کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہم آپس میں مل جل کر کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس میں قومیت کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔"

باہمی احترام کی روایت

جرمنی میں شریبر گارڈن کی روایت کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ ایسے باغات میں بعد دوپہر ایک بجے سے تین بجے تک یا تو کام کرنے کی بجائے آرام کیا جاتا ہے، یا ایسا کوئی کام بہرحال نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے شور ہوتا ہو۔ مقصد یہ کہ دوسروں کے آرام میں خلل پیدا نہ ہو۔

جرمن باشندے چونکہ ہر سال اپنی چھٹیاں باقاعدگی سے مناتے ہیں، اس لئے ان کی ایک بہت بڑی تعداد ہر سال بیرونی ملکوں کا رخ بھی کرتی ہے۔ اس سال سکولوں میں گرمیوں کی چھٹیوں سے پہلے تک تقریبا ہر دوسرے جرمن خاندان کا ارادہ یہ تھا کہ وہ گرمیوں میں کسی نہ کسی دوسرے ملک جائے گا۔ لیکن اب اندرون ملک ہی شہری زندگی کی گہما گہمی سے دور ایسے باغات میں چھٹیاں گذارنے کی سوچ بھی رواج پکڑتی جارہی ہے۔

قریب دو عشرے پہلے تک اکثر لوگ یہ بھی کہتے تھے کہ شریبر گارڈن میں تو زیادہ تر صرف پنشن یافتہ شہری ہی اپنا وقت گذارتے ہیں۔ لیکن اب بہت سے نوجوان بھی گرمیوں میں چند روزہ تعطیلات کے لئے ایسے باغات کو ترجیح دینے لگے ہیں، کیونکہ بہت سے شہریوں نے اپنے باغات میں شب بسری کے لئے لکڑی سے ایک دو کمرے بھی تعمیر کئے ہوتے ہیں۔

رپورٹ: مقبول ملک

ادارت: عاطف بلوچ