1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن اخبارات میں جنوبی ایشیا

شہاب احمد صدیقی / Ana Lehmann20 مارچ 2009

جرمن اخبارات میں اس ہفتے پاکستان میں عدلیہ کی بحالی مرکزی موضوع رہا جس میں پاکستانی سیاسی صورت حال اور بڑی جماعتوں کے درمیان کشیدگی بھی زیر غور رہی۔

https://p.dw.com/p/HGPG
تصویر: AP

گذشتہ ہفتے جرمن اخبارات نے پاکستان کی صورتحال کو خاص طور سے موضوع بنايا جہاں اپوزيشن نے بڑے پيمانے پر عوامی مظاہروں کے ذريعہ حکومت کو جھکنے پر مجبور کر ديا۔

سپريم کورٹ کے چيف جسٹس کو بحال کرديا گيا۔ ليکن اخبارنوئے سيرشر سائٹنگ لکھتا ہے کہ يہ جمہوری اداروں کی شکست ہے۔ جمہوريت پسند کہلائے جانے والے زرداری اور نوازشريف نے پاکستان ميں جمہوريت کو نقصان پہنچايا ہے۔ دونوں دوبارہ ايک دوسرے کی مخالفت پرتوجہ مرکوز کئے ہوئے ہيں۔ اسی وجہ سے بہت سے پاکستانی، ايک معقول فوجی حکومت کو کم تر درجے کی برائی سمجھتے ہيں۔

ايک ايسے موقعے پر جبکہ طالبان اور دوسرے عسکريت پسند رياست کے لئے ايک سنگين خطرہ بنے ہوسے ہيں، آئينی نظام کواورزيادہ کمزورکرديا گيا ہے۔ صرف اپنی رسہ کشی ميں مصروف سياستدانوں کو اس سے کوئی دلچسپی معلوم نہيں ہوتی۔

اخبار نوئے اوسنا بريوکرسائٹنگ تحريرکرتا ہے کہ يہ بالکل غيرواضح کہ پاکستان ميں طاقت کس کے ہاتھ ميں ہے۔ زرداری، خود اپنی مقتولہ اہليہ کے کيمپ ميں بھی بہت حد تک مقبوليت سے محروم ہوچکے ہيں۔ اپوزيشن رہنماء نوازشريف اب بحال ہونے والے چيف جسٹس چودھری کی مدد سے، صدر کے خلاف کرپشن کا مقدمہ شروع کرکے انہيں اورحکومت کواورکمزور کرسکتے ہيں۔

اخبار فرانکفرٹرالگمائنے سائٹنگ لکھتا ہے کہ پاکستان ميں داخلی سياسی پہلوانی سے کہيں زيادہ اہم مسائل درپيش ہيں۔ ايک سو ساٹھ ملين کی آبادی والا ايٹمی ملک، گذشتہ برسوں کے دوران عالمی پريشانی کی وجہ بن چکا ہے۔ علاقائی عدم استحکام اوردنيا بھرميں دہشت گردی کا ذريعہ۔ تين سال سے جاری داخلی ہنگا می صورت حال سے پاکستان کی اقدام کرنے کی صلاحيت مفلوج ہو گئی ہے۔


پاکستان کی صورتحال پرامريکہ اور يورپ ميں تشويش ميں اضافہ ہورہا ہے۔ ليکن، پرويز مشرف کو ہٹائے جانے کے بعد سے ان کے حالات پر اثر ڈالنے کے امکانات بہت کم ہوچکے ہيں۔ اخبار فائنينشل ٹائمزدوئچلانڈ لکھتا ہے کہ نئی امريکی حکومت، حقائق کے حوالے سے اپنی خارجہ پاليسی تشکيل دے رہی ہے۔ اس کی کاميابی کو اس پيمانے پرناپا جائے گا کہ کيا اسے ايک ایسے ملک ميں استحکام پيدا کرنے ميں کاميابی ہوتی ہے جو ايک دوسرے کے دشمن سياستدانوں کے درميان طاقت آزمائی اور شدت پسند عناصرکے حملوں سے لرزرہا ہے۔ ابھی يہ نہيں کہا جاسکتا کہ کيا تازہ ترين تنازعے کے نتيجے سے اس ہدف کے حصول ميں مدد ملے گی۔


سری لنکا کے باغی تامل ٹائيگرز، سرکاری فوج کے نرغے ميں گھری ہوئی، شہری آبادی کو حفاظتی ڈھال بنائے ہوئے ہيں اور وہ انہيں جنگ زدہ علاقے ہيں رہنے پر مجبور کررہے ہيں۔ اخبارٹاگيس سائٹنگ لکھتا ہے کہ دوسری طرف فوج انہيں فاقہ کشی سے دوچار کررہی ہے تا کہ وہ وہاں سے نکل جائيں۔ ہزاروں شہری موت کا شکار ہورہے ہيں۔ اگر شہری، علاقے سے نکل جائيں توحکومت پوری فوجی قوت سے حملہ کرکے غالبا تھوڑے وقت کے اندرہی باغيوں کو شکست دے سکتی ہے۔ وہ شہريوں کو فرار ہونے پر مجبور کرنے کے لئے امدادی تنظيموں کو دوائيں اور غذائی اشياء فراہم کرنے سے روک رہی ہے۔ علاقے سے بھاگ کر آنے والے بتاتے ہيں کہ تامل ٹائيگرز، فرار ہونے کی کوشش کرنے والی شہری آبادی کو گوليوں کا نشانہ بنا رہے ہيں۔ اس کا مقصد يہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عالمی برادری سری لنکا کی حکومت کو جنگ بند کرنے اور مذاکرات کے لئے مجبور کرے۔