1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن اسکول میں فائرنگ، سولہ افراد ہلاک

11 مارچ 2009

حکام کے مطابق جنوبی جرمن علاقے میں ایک مسلح شخص نےاسکول کے اندر فائرنگ کرکے دس طالب علموں سمیت کم از کم پندرہ افراد کو ہلاک کردیا تھا۔ طالب علموں پر فائرنگ کرنے والے اس حملہ آور کو ہلاک کردیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/H9jj
واقعے کے بعد پولیس اہلکار تفتیش میں مصروفتصویر: AP

جرمن پولیس کے مطابق سیاہ کپڑوں میں ملبوس اس نوجوان نے شٹٹ گارٹ کے نزدیک قصبے وینین ین کے اسکول کے اندر بدھ کی صبح ساڑھے نو بجے اندھادھند فائرنگ کی۔ اس واقعے کے فوراً بعد ہی پولیس نے اسکول کی عمارت کا گھیراوٴ کیا اور علاقے کا محاصرہ کیا۔ جرمن حکام کے مطابق حملہ آور کی عمر سترہ برس تھی اور وہ ماضی میں اسی اسکول کا طالب علم رہ چکا تھا۔ اس سے قبل مقامی اخبار وینین ڈیر زائڈنگ کے مدیر فرانک نپکاٴو نے ایک خبر رساں ادارے کو بتایا کہ کم از کم آٹھ طالب علم اس واقعے میں ہلاک ہوگئے ہیں۔ ٹیلی ویژن رپورٹوں میں پہلے یہ بتایا گیا تھا کہ حملہ آور کی عمر پچیس سال کے لگ بھگ تھی۔

وائی بلنگن کے مقامی اخبار سے تعلق رکھنے والے صحافی فرانک نِپ کاؤ نے بتایا:’’موقع پر موجود ہمارے رپورٹر نے جو معلومات فراہم کی ہیں، اُن سے یہ واضح ہے کہ ممکنہ طور پر دو طلبہ نہیں بلکہ مجموعی طور پر دَس افراد مارے گئے ہیں۔ پولیس نے ابھی تصدیق نہیں کی لیکن ہمیں پتہ چلا ہے کہ مرنے والوں میں آٹھ اسکول طلبہ ہیں اور دو باہر کے افراد ہیں۔‘‘

’’صبح ساڑھے نو بجے سیاہ کپڑوں میں ملبوس ایک مرد البروِل اسکول میں داخل ہوا اور اُس نے اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی، جس کے بعد وہ شہر کے مرکزی حصے کی جانب فرار ہو گیا۔ پولیس نے اسکول اور شہر کے وسطی حصے کی ناکہ بندی کر دی ہے اور حملہ آور کی تلاش جاری ہے۔‘‘

خاندانی امور سے متعلق وفاقی جرمن وزیر اُرسُلا فان ڈیئر لایَن نے اِس واقعے پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔

’’یہ خبر ہلا کر رکھ دینے والی ہے۔ کچھ سمجھ ہی نہیں آتی کہ انسان کہے تو کیا کہے۔ سب سے پہلے تو یہ سوچا جانا چاہیے کہ اس طرح سے واقعات سے بچنے کے لئے کیا کیا جا سکتا ہے اور اسکولوں میں کیا تیاریاں کی جا سکتی ہیں۔ پوری دنیا میں اِس طرح کے واقعات پیش آ رہے ہیں تو یہ بھی دیکھا جانا چاہیے کہ کیوں کوئی شخص اتنا جنونی ہو جاتا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی غور کیا جانا چاہیے کہ خاص طور پر اسکولوں میں کیسے اِس طرح کے ہولناک واقعات کا پہلے سے ادراک کیا جا سکتا ہے اور اِنہیں روکا جا سکتا ہے۔‘‘