1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن جج مہاجرين کے حق ميں بول پڑے: پاليسی ميں تبديلی کيوں؟

عاصم سليم22 مئی 2016

جرمنی ميں چوٹی کے ايک جج نے مہاجرين سے متعلق موجودہ حکومتی پاليسيوں پر تنقيد کرتے ہوئے متنبہ کيا ہے کہ اس ضمن ميں جرمنی کی طرف سے پناہ گزينوں سے متعلق بين الاقوامی قوانين کی خلاف ورزی عین ممکن ہے۔

https://p.dw.com/p/1IsZS
تصویر: picture alliance/dpa/B. Roessler

وفاقی عدالت انصاف ميں اعلیٰ عہدے کے حامل جج تھوماس فشر نے کہا ہے کہ جرمنی مہاجرين کے حوالے سے جنيوا کنونشن کی خلاف ورزی کے ارتکاب کے بہت قريب ہے۔ انہوں نے يہ بات جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے سے بات چيت کرتے ہوئے اتوار بائيس مئی کے روز کہی۔ فشر کے مطابق برلن حکومت مہاجرين کے بحران سے نمٹنے کے تناظر ميں چانسلر انگيلا ميرکل کے مقبول ہو جانے والے جملے ’ہم يہ کر دکھائيں گے‘ اور اپنی ’کھلے دل، کھلے دروازوں‘ کی پاليسيوں سے پيچھے ہٹ کر ناانصافی کر رہی ہے۔

گزشتہ برس کی تيسری سہ ماہی ميں ہنگری نے مشرق وسطیٰ، شمالی افريقہ اور جنوبی ايشيا سے سياسی پناہ کے ليے يورپ آنے والے پناہ گزينوں کے ليے اپنی سرحديں بند کر دی تھيں۔ اس وقت جرمنی نے مہاجرين کے مدد کے ليے اپنی سرحدیں کھولنے کا اعلان کيا تھا۔ تاہم گزشتہ برس کے اختتام تک جرمنی ميں 1.2 ملين پناہ گزينوں کی آمد کے ساتھ داخلی سطح پر کافی مخالفت سامنے آئی اور آہستہ آہستہ اس گرم جوشی ميں کمی آتی گئی۔ ان دنوں يہ تاثر عام ہے کہ جرمن حکومت اب اپنی ’کھلے دل کی پاليسی‘ سے پيچھے ہٹ چکی ہے، جس کی ايک بڑی وجہ مہاجرين کی يورپ آمد روکنے کے ليے يورپی يونين اور ترکی کے مابين مارچ ميں طے ہونے والا معاہدہ بھی ہے۔

انقرہ حکومت کو انسانوں کے اسمگلروں کے خلاف کارروائی اور اپنی سرزمين کا استعمال کرتے ہوئے يورپ يا بالخصوص يونان آنے والے مہاجرين کو روکنے کے بدلے يورپی بلاک کی طرف سے مجموعی طور پر چھ بلين يورو ديے جانا ہيں۔ تاہم ترکی ميں گزشتہ دنوں سياسی افراتفری اور سابق وزير اعظم احمد داؤد اولُو کے استعفے کے اعلان نے اس ڈيل کو بھی خطرے ميں ڈال ديا تھا۔ چانسلر ميرکل تئيس اور چوبيس مئی کو استنبول ميں ہونے والی پہلی ورلڈ ہيومينيٹيرين سمٹ ميں شرکت کے سلسلے ميں آج بروز اتوار ترکی روانہ ہو رہی ہيں۔ ميرکل پير کے روز ترک صدر رجب طيب ايردوآن سے ملاقات کريں گی۔ جرمن چانسلر اس ملاقات ميں مہاجرین سے متعلق ڈيل کے علاوہ ترکی ميں اس حاليہ سياسی پيش رفت پر بھی بات چيت کريں گی، جسے انہوں نے آج اتوار کو شائع ہونے والے اپنے ايک اخباری انٹرويو ميں ’باعث تشويش‘ قرار دیا۔

جرمن چانسلر پير کو ترک صدر کے ساتھ ملاقات ميں متعدد اہم امور اٹھائيں گی
جرمن چانسلر پير کو ترک صدر کے ساتھ ملاقات ميں متعدد اہم امور اٹھائيں گیتصویر: picture alliance/dpa/K. Nietfeld

اسی تناظر ميں بات کرتے ہوئے وفاقی جرمن عدالت انصاف کے جج تھوماس فشر نے سوال اٹھايا کہ اگر مہاجرين کے بحران کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے يورپ کی جانب سے دی جانے والی اتنی بھاری رقوم کے باوجود ترکی اور صدر رجب طيب ايردوآن معاہدے پر عمل پيرا نہيں ہوتے، تو پھر کيا ہو گا؟ انہوں نے اس بات پر بھی تنقيد کی کہ حکومت پناہ گزينوں کے مقابلے ميں اس حوالے سے زيادہ فکر مند ہے کہ ملک ميں رائے دہندگان کی طرف سے سیاسی حمایت کے ليے موزوں ماحول پيدا ہو سکے۔ فشر نے مزيد کہا، ’’سياست دانوں کو دائيں بازو اور اجنبيوں سے خوف کی جانب سرکتے جا رہے معاشرے سے خوف زدہ نہيں ہونا چاہيے۔‘‘

يہ امر اہم ہے کہ يورپ کے چند ممالک ميں عام انتخابات اور جرمنی ميں حاليہ صوبائی اليکشن ميں ہجرت و مہاجرين مخالف سياسی جماعتوں کی عوامی سطح پر مقبوليت ميں اضافہ ديکھنے ميں آيا ہے۔ اس پر چانسلر ميرکل کی مرکز سے دائيں جانب جھکاؤ رکھنے والی پارٹی کرسچن ڈيموکريٹک يونين (CDU) کو بھی دیگر بڑی جماعتوں کی طرح تشویش ہے۔