1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن عدالت نے مہاجر کے خلاف فیصلہ کیوں دیا؟

عاطف بلوچ، روئٹرز
9 مارچ 2017

چانسلر انگیلا میرکل کے ساتھ ایک مہاجر کی تصویر سوشل میڈیا پر سامنے آئی تھی، تاہم اس مہاجر کو جعلی تصاویر میں اسلامی شدت پسند کے روپ میں دکھایا جاتا رہا۔

https://p.dw.com/p/2Yu5V
Deutschland Merkel Selfie mit Anas Modamani
تصویر: Getty Images/S. Gallup

اس مہاجر کی تصاویر کو استعمال کر کے نسل پرست اس کے خلاف تشدد کو ہوا دیتے آئے ہیں۔ تاہم جرمن عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ امریکی ادارہ فیس بک کسی شخص سے متعلق ایسے تصاویر ڈھونڈ ڈھونڈ کر ہٹانے کے ذمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا۔

19 سالہ شامی مہاجر انس مودامانی نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ یورپ میں اس سماجی رابطے کی ویب سائٹ کے نمائندے فیس بک آئرلینڈ لمیٹڈ سے کہا جائے کہ وہ اس کے حوالے سے جھوٹی خبروں اور اطلاعات کو روکے۔ اس نوجوان مہاجر کی جعلی تصاویر جھوٹی خبروں کے ساتھ فیس بک پر لاتعداد مرتبہ شیئر کی جاتی رہی ہے۔

Facebook-Prozess in Würzburg - Anas Modamani
انس کو فیس بک پر جعلی تصاویر میں شدت پسند بنا کر پیش کیا گیاتصویر: Getty Images/AFP/T. Kienzle

عدالت سے کہا گیا تھا کہ فیس بک کو پابند بنایا جائے کہ وہ مودامانی کی تصاویر کو پوری تن دہی سے تلاش کر کے ڈیلیٹ کرے۔ عدالت میں مودامانی کے وکیل چن جو جُن کا موقف تھا کہ فیس بک اپنے نظام کے تحت مودامانی کے چہرے کو خودکار انداز سے تلاش کرنے کی اہلیت کا حامل ہے، اس لیے یہ تصاویر ویب سائٹ پر نہیں ہونا چاہیں۔ چن جو جُن نے عدالت کو بتایا کہ فیس بک اسی نظام کے تحت کاپی رائٹ میوزک اور برہنہ تصاویر کو تلاش کر کے ہٹاتا رہتا ہے۔

تاہم جج نے کہا کہ ایسی تصاویر کے حوالے سے فیس بک کی بجائے ان افراد پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے، جو ایسی جعلی تصاویر پوسٹ کرتے ہیں، اس لیے اس کے لیے فیس بک کو جواب دہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ عدالت نے تاہم کہا کہ کسی اور سماعت میں آئی ٹی ماہرین سے اس بابت پوچھا جائے گا کہ اس سلسلے میں کیا کچھ کیا جا سکتا ہے۔

اس عدالتی فیصلے پر مودامانی کے وکیل نے ’افسوس‘ کا اظہار کیا ہے۔ ان کا تاہم کہنا ہے کہ وہ اس عدالتی فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس مقدمے کی وجہ سے انہیں بھی سوشل میڈیا پر دھمکیوں کا سامنا ہے۔