1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’جرمن مسلم تنظیمیں بھی اسلام پسندانہ دہشت گردی پر نظر رکھیں‘

مقبول ملک
31 دسمبر 2016

وفاقی جرمن وزیر داخلہ تھوماس دے میزیئر نے اپنے ایک انٹرویو میں مطالبہ کیا ہے کہ جرمنی میں اسلام پسندوں کی خونریز دہشت گردی کو روکنے کے لیے ملک میں مسلمانوں کی نمائندہ تنظیمیں بھی سرگرمی سے اپنا کردار ادا کریں۔

https://p.dw.com/p/2V5cr
Abu Askar Screenshot Video Internet Deutsche Terroristen Deutschland Islamisten
جرمنی سے اب تک سینکڑوں مسلم شدت پسند داعش کے جنگجوؤں کے طور پر جہاد کے لیے عراق اور شام جا چکے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/Internet

جرمن دارالحکومت برلن سے ہفتہ اکتیس دسمبر کو ملنے والی رپورٹوں میں کیتھولک خبر رساں ادارے کے این اے نے لکھا ہے کہ چانسلر انگیلا میرکل کی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین (CDU) سے تعلق رکھنے والے وزیر داخلہ تھوماس دے میزیئر نے کہا ہے کہ جرمنی کو اس وقت مذہب کے نام پر دہشت گردانہ حملے کرنے والے جن اسلام پسندوں کی وجہ سے شدید قسم کے چیلنج اور خطرات لاحق ہیں، ان کا کامیابی سے مقابلہ کرنے کے لیے جرمنی میں آباد مسلمانوں کی نمائندہ ملکی اور علاقائی تنظیموں کو بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہو گا۔

کیتھولک نیوز ایجنسی KNA کے مطابق دے میزیئر نے کہا کہ اس مقصد کے لیے جرمنی میں مسلمانوں کی تنظیموں کو ’اپنے ارد گرد کے ماحول اور اس میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر گہری نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ شدت پسند مسلمانوں کی طرف سے پیدا ہونے والے ممکنہ سماجی اور سکیورٹی خطرات کو بھی نگاہ میں رکھنا ہو گا۔‘‘

وفاقی وزیر داخلہ نے فُنکے میڈیا گروپ کے اخبارات اور جرائد میں ہفتے کے روز شائع ہونے والے اپنے اس انٹرویو میں کہا، ’’مجھے امید ہے کہ مستقبل میں بھی ہمارا مسلمانوں کی نمائندہ تنظیموں کے ساتھ قریبی اور بامقصد اشتراک عمل جاری رہے گا تاکہ جرمنی میں آباد مسلمانوں میں ہر قسم کی ممکنہ مذہبی شدت پسندی کا نتیجہ خیز انداز میں سدباب کیا جا سکے۔‘‘

Salafisten in Deutschland
برلن کے تاریخی برانڈن برگ گیٹ کے سامنے سخت گیر سلفی نظریات کے حامل مسلمانوں کے ایک مقامی گروپ کا مظاہرہتصویر: picture-alliance/dpa/ W.Steinberg
Salafisten in Deutschland
تصویر: picture-alliance/dpa/ W.Steinberg

اپنے اس انٹرویو میں دے میزیئر نے یہ اعتراف بھی کیا کہ جرمنی میں ایسے مسلمان مجموعی طور پر اقلیتی مسلم آبادی میں بھی محض ایک چھوٹی سی اقلیت ہیں، جو بنیاد پرستانہ مذہبی رجحانات کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔

ساتھ ہی وزیر داخلہ نے اس بارے میں افسوس کا اظہار بھی کیا کہ جرمنی میں مسلمانوں کی نمائندہ تنظیموں کا یہاں رہنے والے مسلمانوں کی زندگیوں پر سماجی اثر و رسوخ اور اس کے اثرات ’بہت زیادہ نہیں‘ ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں