1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن ناول نگار کے لئے 25ہزار یورو کا ادبی انعام

امجد علی / کشور مصطفےٰ7 جولائی 2009

جرمنی کے ہمسایہ ملک آسٹریا کے شہر کلاگن فُرٹ میں ہر سال دیا جانے والا اِنگے بورگ باخ مان پرائز جرمن بولنے والے ملکوں کے اہم ترین ادبی اعزازات میں سے ایک ہے۔

https://p.dw.com/p/IhJ1
2009ء کے اِنگے بورگ باخ مان پرائز کے حقدار قرار دئے جانے والے Jens Petersenتصویر: dpa

حسبِ روایت اِس بار بھی انعام کا فیصلہ اُس تین روزہ اجتماع کے آخر میں کیا گیا، جس میں مختلف جرمن خطوں سے گئے ہوئے چَودہ ادیبوں نے اپنی تخلیقات میں سے اقتباسات پڑھ کر سنائے۔ یہ اپنی نوعیت کا تینتیس واں اجتماع تھا، جس میں جیوری نے تمام ادیبوں کے اقتباسات سننے کے بعد تیسرے روز بالآخر تینتیس سالہ جرمن ادیب ژَینز پیٹرسن کو انعام کا حقدار قرار دیا۔

ژَینز پیٹرسن پیشے کے اعتبار سے میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔ پیدا وہ جرمنی میں ہوئے لیکن ڈاکٹر کے طور پر کام وہ آج کل سوئٹزرلینڈ کے شہر زیورچ میں کرتے ہیں۔ کھلے دِل کے مالک، دُبلے پتلے اور گھنے سنہری بالوں والے پیٹرسن کو دیکھ کر یہ خیال بھی نہیں آتا کہ اُن کے قلم سے گھناؤنی تفصیلات کی حامل اتنی پُر درد تحریر نکلی ہو گی۔

Jens Petersen Flash-Galerie
درمیان میں کھڑے ژَینز پیٹرسن اپنا پچیس ہزار یورو مالیت کا ایوارڈ وصول کرتے ہوئےتصویر: AP

یہ کہانی ایک ایسے شخص کی ہے، جو اپنی کئی برسوں سے بیمار گرل فرینڈ کو مزید تکلیف سے بچانے کے لئے گولی مار کر ہلاک کر دیتا ہے۔ اپنے اِس ناول ’’موت تک‘‘ کے بارے میں بات کرتے ہوئے ژَینز پیٹرسن کا کہنا تھا:’’یہ کہانی آلیکس اور ایک خاتون نانا کی ہے، جو انتہائی بیمار ہے۔ وہ دونوں ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور جیون ساتھی بن جاتے ہیں۔ یہ ناول اُن دونوں کی زندگی، پیار اور ابتلا کی داستان بیان کرتا ہے، یہاں تک کہ نانا مر جاتی ہے۔ آلیکس مرنے میں ایک طرح سے اُس کی مدد کرتا ہے کیونکہ وہ اتنی بیمار ہے کہ ہِل بھی نہیں سکتی۔ ایسے میں آلیکس اپنی محبوبہ کی آخری خواہش تو پوری کرتا ہے لیکن خود بھی ایک تکلیف دہ عمل سے گذرتا ہے کیونکہ اُسے اپنے ہی ہاتھوں اُس انسان سے جدا ہونا پڑتا ہے، جسے وہ دنیا میں سب سے زیادہ چاہتا ہے۔‘‘

ابھی ژَینز پیٹرسن نے اپنے اِس زیرِ تکمیل ناول کے محض ابتدائی ابواب تحریر کئے ہیں۔ اُن کا پہلا ناول ’’دا ہاؤس کیپر‘‘ تھا، جو سن 2005ء میں شائع ہوا تھا۔ اُس ناول کے لئے بھی پیٹرسن کو جرمنی میں متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا تھا۔

Ingeborg Bachmann
آسٹرین ادیبہ اِنگے بورگ باخ مانتصویر: AP

لکھنا اور لکھتے رہنا اُن کی عادتِ ثانیہ ہے، جس کے بغیر وہ خود کو ادھورا محسوس کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں:’’میرے خیال میں لکھنا میرے لئے ایک ضروری عمل ہے۔ یہ میرے لئے ایسے ہی ہے، جیسے کھانا کھانا، اگر مَیں نہ لکھوں تو کچھ ہی روز بعد میرے ہاں ڈیپریشن کی علامات ظاہر ہونا شروع ہو جائیں گی۔ مَیں نے بہت سے ادیبوں کے ساتھ بھی بات چیت کی ہے اور اُنہوں نے اِس امر کی تصدیق کی کہ اُن کی بھی یہی حالت ہو جاتی ہے۔ چند ایک دن ہوتے ہیں، جب مَیں کچھ نہیں لکھ پاتا، ورنہ ہر روز لکھتا ہوں۔ سال کے تین سو پینسٹھ میں سے اوسطاً تین سو تینتیس دن تو ضرور کچھ نہ کچھ لکھتا ہوں گا۔‘‘

اِس سا ل جن چَودہ ادیبوں نے اِنگے بورگ باخ مان انعام کے لئے منعقدہ سہ روزہ اجتماع میں شرکت کی، اُن میں سے آٹھ کا تعلق جرمنی سے، دو کا سوئٹزرلینڈ سے اور چار کا میزبان ملک آسٹریا سے تھا۔ تاہم اجتماع کے اختتام پر دئے جانے والے تمام پانچ اعزازات جرمن ادیبوں ہی کے حصے میں آئے۔ یہ انعام آسٹریا کے اِسی شہر کلاگن فُرٹ میں پیدا ہونے والی ادیبہ اِنگے بورگ باخ مان سے موسوم ہے، جو سن1973ء میں پچاس برس کی عمر میں انتقال کر گئی تھیں۔