1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن وزیر خارجہ بھارت کے تین روزہ دورے پر

مقبول ملک19 نومبر 2008

جرمن وزیرخارجہ شٹائن مائر بدھ کی رات سے شروع ہونے والے اپنے تین روزہ دورہ بھارت کے دوران بھارتی رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات میں زیادہ ترمالیاتی منڈیوں میں موجودہ بحران اور ایٹمی توانائی سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کریں گے۔

https://p.dw.com/p/Fy6h
بھارت کے اپنے اولین دورے کے دوران جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر کو اس ملک میں سماجی تضادات کے اس پہلو سے روشناس ہونے کا موقع کم ہی ملے گاتصویر: AP

بھارت کو ایک ایسا معاشرہ قرار دیا جاسکتا ہے جہاں داخلی تضادات کی کوئی کمی نہیں ہے اور یہ ملک ایشیاکی بڑی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت بھی ہے۔ بھارت ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھی کافی پیش رفت کا مظاہرہ کررہا ہے اور اس نے ابھی حال ہی میں اپنا جو اولین مشن چاند پر بھیجا، اس پر قریب 60 ملین یورو لاگت آئی۔ لیکن ساتھ ہی بھارت میں غربت کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ بھارت کے 1.2بلین میں سے آدھے سے زائد شہری دوڈالر سے بھی کم کی یومیہ آمدنی پر گذارہ کرنے پر مجبور ہیں۔

جرمن امدادی تنظیم Welthungerhilfe کے بھارت کے لئے علاقائی ڈائریکٹربیرنارڈ ہوئپر کہتے ہیں کہ بات اگر بھارت کے پنجاب اور ہریانہ جیسے صوبوں کی بھی کی جائے تو وہاں اشیائے خوراک کی دستیابی کی ضمانت کے حوالے سے حالات کئی افریقی ملکوں کی صورت حال سے بھی خراب ہیں۔

Indien Premierminister Manmohan Singh
جرمن وزیر خارجہ اس امید کے ساتھ بھارت گئے ہیں کہ اگرمکمل نہیں تو نئی دہلی حکومت کم ازکم جزوی طور پر ایٹمی توانائی کے ادارے کو اپنی جوہری تنصیبات کے معائنے کی اجازت دے دے گی۔تصویر: picture-alliance/Bildfunk

بھارت کے اپنے اولین دورے کے دوران جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر کو اس ملک میں سماجی تضادات کے اس پہلو سے روشناس ہونے کا موقع تو کم ہی ملے گا کیونکہ ان کی بھارتی رہنماؤں کے ساتھ بات چیت ملکی دارالحکومت نئی دہلی، جنوبی بھارت میں ٹیکنالوجی کے مرکزبنگلور اور ایسے ہی دوسرے شہروں میں ہوگی۔ اس بارے میں برلن میں جرمن دفتر خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ شٹائن مائر کے اس دورے کے دوران زیادہ تر بات چیت عالمی مالیاتی منڈیوں کی موجودہ صورت حال کے بارے میں ہو گی، اس بارے میں کہ عالمی معیشت میں ترقی کی شرح کو مستحکم رکھنے میں ترقی کی دہلیز پر کھڑی ریاستیں کیا کردار اداکرسکتی ہیں اور یہ بھی کہ تحفظ ماحول سمیت عالمی نوعیت کے دیگر چیلنجوں پر قابو کیسے پایا جاسکتا ہے۔

جہاں تک بھارت کی طرف سے ایٹمی توانائی کے شعبے میں بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ تعاون کا سوال ہے تو جرمن وزیر خارجہ اس امید کے ساتھ بھارت گئے ہیں کہ اگرمکمل نہیں تو نئی دہلی حکومت کم ازکم جزوی طور پر ایٹمی توانائی کے ادارے کو اپنی جوہری تنصیبات کے معائنے کی اجازت دے دے گی۔

اس حوالے سے جرمنی میں اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں میں کوئی زیادہ اطمینان نہیں پایا جاتاکہ یہ امکان کافی زیادہ ہے کہ بھارت اپنی صرف دو تہائی ایٹمی تنصیبات کے معائنے کی اجازت دے سکتا ہے۔ لیکن فرانک والٹر شٹائن مائر اس بات کو اس لئے ایک اچھی امکانی پیش رفت قرار دیتے ہیں کہ یوں کم ازکم بھارت کو بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ بھر پور اشتراک عمل کےقریب تر لایا جاسکتا ہے۔