1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن وزیر دفاع افغانستان کے اچانک دورے پر

12 نومبر 2009

جرمن وزیر دفاع نے کہا کہ افغانستان کے مسئلے پر ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی جانی چاہیے تاکہ نیٹو کے افغان مشن کے مقاصد کی پوری طرح سے وضاحت کی جاسکے۔

https://p.dw.com/p/KUfu
جرمن وزیردقاع کارل تھیوڈور سو گوٹنبیئرگ افغانستان پہنچنےتصویر: AP

افغانستان کی دن بدن بدلتی سیکیورٹی کی صورتحال کی وجہ سے جہاں امریکہ اپنی نئی حکمت عملی ترتیب دے رہا ہے، وہیں مغربی دفاعی اتحاد میں شامل تیسرا بڑا ملک جرمنی بھی اس کوشش میں ہے کہ افغانستان کے حوالے سے واضح پالیسی ترتیب دی جائے۔ اسی تناظر میں جرمن وزیردفاع کارل تھیوڈور سو گوٹنبیئرگ، آج جمعرات کو غیر اعلانیہ دورے پر افغانستان پہنچے ہیں۔

ابھی پچھلے ماہ ہی وزارت دفاع کا قلمدان سنبھالنے والے کارل تھیوڈورسو گوٹنبیئرگ افغان پالیسی سے متعلق غیر مبہم طریقے سے اپنی بات کہتے ہیں۔ جرمن قومی ٹیلی وژن پر اپنے حالیہ خطاب میں وزیر دفاع نے کہا کہ افغانستان کے مسئلے پر ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی جانی چاہیے تاکہ نیٹو کے افغان مشن کے مقاصد کی پوری طرح سے وضاحت کی جاسکے۔ وہ یہ تک کہہ گئے کہ افغانستان سے واپس چلے جانے کی حکمت عملی یا لفظ ’’ایکزٹ اسٹریٹیجی‘‘ کے استعمال پر شرم محسوس نہیں کی جانی چاہیے۔ گوٹنبیئرگ کے افغانستان کے اچانک دورے کے حوالے سے برلن میں وزارت دفاع کی طرف سے ایک بیان جاری کیا گیا۔ اس بیان کے مطابق جرمن وزیر دفاع اپنے اس دورے میں افغان صدر حامد کرزئی کے علاوہ نیٹو کے اعلیٰ عہدیداروں سے بھی اہم ملاقاتیں کریں گے۔ جرمن وزیر دفاع اپنے افغان ہم منصب عبدالرحیم وردک سے بھی ملیں گے۔

گوٹنبیئرگ کے اس دورے کو اس لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل قرار دیا جارہا ہے کہ تاکہ امریکہ کی نئی افغان پالیسی سامنے کے بعد جرمنی کا کردار واضح ہوجائے۔ جرمن وزیردفاع اپنے دورے میں حالات کا بغور جائزہ لیں گے تاکہ واپسی پر چانسلر انگیلا میرکل کو نئی پالیسی ترتیب دینے میں ایک بہتر مشورہ دے سکیں۔

اس وقت افغانستان میں جرمنی کے 4250 فوجی تعینات ہیں۔ افغانستان میں امریکہ اور برطانیہ کے بعد سب سے زیادہ فوجی جرمنی کے ہی موجود ہیں۔ سن 2003ء سے اب تک جرمنی کے 36 فوجی اہلکار افغانستان میں مارے جاچکے ہیں۔

ابھی حال ہی میں افغان صوبے قندوز میں ایک جرمن کرنل کے کہنے پر نیٹو کے ایک فضائی حملے میں طالبان عسکریت پسندوں کے ساتھ ساتھ کئی عام شہریوں کے ہلاک ہونے کی بھی اطلاعات ملیں۔ اس واقعے کے بعد افغانستان میں جرمنی کے فوجی مشن پر کئی حلقوں سے اعتراضات سامنے آئے۔

داخلی سطح پر بھی جرمن حکومت پر یہ دباؤ بڑھتا نظر آیا کہ افغانستان سے جرمن فوجیوں کی واپسی ہونی چاہیے۔

جرمن وزیردفاع نے ایک حالیہ انٹرویو میں جرمن پارلیمنٹ کوبھی مخاطب کرتے ہوئے کہا:’’جرمن پارلیمنٹ کو اب ہر صورت اس معاملے پر بحث کرنا چاہیے۔ امریکہ ہمیں بھی اپنے فوجیوں کی تعداد بڑھانے کی درخواست کر سکتا ہے۔ اس لیے اپنا لائحہ عمل ترتیب دینے کے لیے ابھی سے تیاری کی ضرورت ہے۔‘‘

موجودہ وزیر دفاع کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ افغانستان میں جرمن فوج کی موجودگی کے حوالے سے بہت واضح نظریہ رکھتے ہیں جبکہ سابق وزیر دفاع فرانس یوزف یُنگ افغان جنگ کو جنگ کہنے سے بھی کتراتے تھے۔

رپورٹ: عبدالرؤف انجم

ادارت: گوہر گیلانی