1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ميرکل کے نام خط: ترک جيلوں سے دانشوروں کو رہا کرايا جائے

عاصم سلیم
9 نومبر 2016

متعدد جرمن دانشوروں نے چانسلر انگيلا ميرکل کے نام ايک کُھلا خط لکھا ہے، جس ميں اُن سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ ترکی کی جيلوں ميں قيد مقامی دانشوروں کی رہائی کے ليے زيادہ فعال کردار ادا کريں۔

https://p.dw.com/p/2SPMu
Deutschland Reaktion US-Wahl - Bundeskanzlerin Angela Merkel
تصویر: Reuters/A. Schmidt

جرمنی ميں ثقافتی شعبے سے تعلق رکھنے والے کئی نماياں افراد نے ترکی ميں اسی شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد اور عہديداروں کے ساتھ اضافی سياسی يکجہتی کا مطالبہ کيا ہے۔ اس سلسلے ميں دارالحکومت کی برلن اکيڈمی آف آرٹس کی قيادت ميں متعدد ديگر تعليمی و فلاحی اداروں نے ايک کھلا خط تحرير کيا ہے، جس ميں ترکی ميں سرگرم صحافيوں، مصنفوں، سائنسدانوں اور اپوزيشن کے اہلکاروں کے حقوق کے ليے جدوجہد پر زور ديا گيا ہے۔

ترکی ميں رواں برس پندرہ جولائی کو صدر رجب طيب ايردوآن کی حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کی گئی تھی۔ بعد ازاں اس ناکام کوشش ميں ملوث ہونے يا پھر امريکا ميں مقيم ايردوآن کے سياسی مخالف فتح اللہ گولن کے ساتھ روابط رکھنے کے الزام ميں ترکی ميں سينکڑوں صحافيوں، مصنفوں، سائنسدانوں اور دانشوروں کو گرفتار کيا جا چکا ہے۔

جرمنی ميں فرينکفرٹ بک فيئر، جرمن اکيڈمک ايکسچينج سروس اور کلچر فورم ترکی جرمنی جيسی تنظيموں اور اداروں نے مطالبہ کيا ہے کہ چانسلر ميرکل ترکی ميں قيد دانشوروں کی فوری رہائی کے ليے آواز بلند کريں اور اس سلسلے ميں تمام تر سفارتی طريقہ کار کو بروئے کار لايا جائے۔

جرمن دانشوروں اور تعليمی و ثقافتی اداروں کی جانب سے يہ خط ايک ايسے موقع پر تحرير کيا گيا ہے جب چند روز قبل ہی جرمن وزارت خارجہ نے بھی يہ اعلان کيا تھا کہ جن ترک شہريوں کو ايسا محسوس ہوتا ہے کہ انہيں ان کے سياسی نقطہ نظر اور حکومت پر تنقيدی نظريہ رکھنے کی بنياد پر نشانہ بنايا جا رہا ہے، انہيں جرمنی ميں سياسی پناہ کی درخواست دينے کی اجازت ہے۔

جرمنی اور ترکی کے مابين ثقافتی تبادلے کے فورم کے ترجمان عثمان اوکان نے ڈی ڈبليو سے خصوصی طور پر بات چيت کرتے ہوئے کہا کہ ترکی ميں حالات و واقعات بہتری کی طرف جانے سے قبل خرابی کی طرف بڑھيں گے۔ انہوں نے کہا، ’’عوام  کو ترکی کو ايک اور سمت سے بھی ديکھنا ہو گا۔ جمہوری سمت سے، نہ کہ صرف ايردوآن پر توجہ جاری رہے۔ ہميں آہستہ آہستہ ملک ميں سرگرم جمہوری قوتوں کو تقويت بخشنی ہو گی اور اسے يقينی بنانا ہو گا کہ ان کی آوزايں بھی سنائی ديں۔‘‘ اوکان کے بقول ترکی کی صورتحال اس بات کی عکاس ہے کہ صدر ايردوآن آمرانہ طرز کی صدارات سے متعلق اپنے مقصد کے حصول کے ليے کس طرح بے رحمی کا مظاہرہ کر رہے ہيں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید