جرمن چین حکومتی مذاکرات کا دوسرا دور
28 اگست 2012جرمنی اور چین کے مابین سفارتی تعلقات گزشتہ چالیس برسوں سے قائم ہیں۔ اس دوران مختلف ادورا میں ان تعلقات کو فروغ دینے کی کوششیں بھی کی جاتی رہی۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی جرمن چین حکومتی مذاکرات کی ابتدا بھی ہے۔ اسی ماہ کی تیس تاریخ کو اپنی نوعیت کے دوسرے اجلاس میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل کابینہ کے سات وزراء کے ساتھ شرکت کر رہی ہیں۔
2011ء کے اجلاس میں چینی وزیراعظم وین جیا باؤ شرکت کے لیے برلن آئے تھے۔ انہوں نے اس موقع پر کہا تھا ’’یہ پہلی مرتبہ ہے کہ کسی دورے کے دوران تیرہ وزراء میرے ساتھ تھے۔ ہم نے اس اجلاس کے دوران تعاون اور تجارت کے شعبوں میں بیس معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ جن کی مالیت 15ارب ڈالر بنتی ہے‘‘۔
یورپ دنیا بھر میں چین کا ایک اہم تجارتی ساتھی ہے اور یورپ میں اس حوالے سے جرمنی سرفہرست ہے۔ لیکن اگر جرمن مصنوعات کی بات کی جائے تو چین جرمن سامان کی پانچویں سب سے بڑی منڈی ہے۔
جرمن شہر ٹریئر سے تعلق رکھنے والے چینی امور کے ماہر سیباستیان ہائل من کے خیال میں دونوں ملکوں کے مابین باہمی تعلقات کے فروغ میں تجارتی روابط کا نمایاں کردار ہے۔ وہ کہتے ہیں’’ دونوں ممالک ایک دوسرے کی تعریف کرتے رہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جرمنی وہ اشیاء برآمد کرتا ہے جس کی چین کو ضرورت ہے اور جرمنی کی ضرورتیں چین پوری کرتا ہے۔ ایک طرح سے صنعتی سطح پر یہ دنوں ملک ایک دوسرے سے بالکل مختلف مصنوعات تیار کرتے ہیں۔ جرمنی اعلی ٹیکنالوجی کی حامل مہنگی صنعتی اشیاء تیار کرتا ہے جبکہ چین درمیانہ قیمت کی۔ چین کا ہدف ترقی پذیر اور ترقی کی دہلیز پر کھڑے ممالک کی منڈیاں ہیں‘‘۔
چین اور جرمنی کے مابین ہر محاذ پر یہ اتفاق رائے نظر نہیں آتا۔ بہت سے عالمی مسائل پر دونوں ممالک کی رائے ایک دوسرے سے بہت ہی مختلف ہے۔ مثال کے طورپر شامی بحران اور ایران کا متنازعہ جوہری پروگرام۔ ماہرین کی رائے میں حکومتی مذاکرات کے اس دوسرے دور کے بعد جرمنی اور چین کے مابین تعلقات مزید پختہ ہوں گے۔
M.von Hein / ai / ah