1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن کمپنیوں کا خواتین عہدیداروں کی تعداد میں اضافے کا فیصلہ

31 مارچ 2011

جرمنی کی تیس اہم اور معروف ترین کمپنیوں نے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ کہ وہ اعلیٰ ترین عہدوں پر خواتین کی تقرّریوں میں اضافہ کریں گی۔

https://p.dw.com/p/10l0D
خواتین کے حقوق سے متعلق تنظیمیں صنفی امتیاز کے خاتمے پر زور دیتی ہیںتصویر: PictureP. - Fotolia.com

فرینکفرٹ بلُو چِپ ڈیکس انڈیکس کی فہرست میں موجود تیس کمپنیوں نے یہ اعلان بدھ کے روز حکومتی وزراء کے ساتھ ہونے والی ایک میٹنگ میں کیا۔ تاہم ان کمپنیوں نے نوکریوں کے حوالے سے کوٹہ مقرّر کرنے کی مخالفت کی ہے۔

واضح رہے کہ جرمنی کی اعلیٰ ترین کمپنیوں میں ایگزیکٹو لیول پر خواتین کی تعداد ڈرامائی حد تک کم ہے اور خواتین کے حقوق سے متعلق کام کرنے والی تنظیمیں اس بات کی نشاندہی کرتی رہتی ہیں۔

Deutschland Bundesregierung Kabinett beschliesst schärfere Integrationsregeln
جرمن چانسلر میرکل (دائیں) اور وزیر برائے خاندانی امور کرسٹینا شرؤڈر (بائیں)تصویر: dapd

میٹنگ کے بعد کمپنیوں کی جانب سے جاری کیے گئے ایک مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ خواتین کی نمائندگی بہت سی کمپنیوں کی اعلیٰ ترین سطح پر بہت کم ہے اور اس حوالے سے یہ کمپنیاں خواتین کی نمائندگی کو بڑھانے کے لیے اپنے طور پر ٹارگٹس مقرّر کریں گی۔

اس اعلامیے پر غیر سرکاری تنظیموں نے نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ہے کہ کمپنیوں کے بورڈ آف گورنرز میں خواتین کی تعداد کم از کم تیس فیصد ہونی چاہیے اور بدھ کی میٹنگ کوئی ٹھوس فیصلہ کرنے اور اہداف طے کرنے میں ناکام رہی ہے۔

جرمنی کے ادارہ برائے معاشی تحقیق کے اعداد و شمار کے مطابق جرمنی کی دو سو بڑی کمپنیوں میں ایگزیکٹو سطح پر خواتین کی تعداد 3.2 فیصد ہے۔

وفاقی جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اس بات کی مذمت کی ہے کہ اس ضمن میں سن 2001 میں طے کیے جانے والے اہداف کا بہت کم اطلاق کیا گیا ہے۔ گو کہ میرکل نے حکومت کی جانب سے اس حوالے سے کوئی کوٹہ مختص کرنے کی مخالفت کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ کہ اگر کمپنیوں نے خود سے اس بارے میں کوئی پیش رفت نہ کی تو حکومت کو مداخلت کرنا پڑے گی۔ وفاقی جرمن وزیر برائے خاندانی امور کرسٹینا شرؤڈر کا بھی کہنا ہے کہ اگر کمپنیاں خواتین ایگزیکٹوز کی تعداد میں سن 2013 تک تین گنا اضافہ نہیں کریں گی تو حکومت کو اہداف مقرّر کرنے پڑیں گے۔

رپورٹ: شامل شمس⁄ خبر رساں ادارے

ادارت: عابد حسین