1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن کمپنیوں کو سرمایہ کاری میں سہولت دی جائے گی، مودی

31 مئی 2017

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا دو روزہ دورہء جرمنی اختتام کو پہنچ گیا۔ اس دوران مودی نے جرمن کمپنیوں کے بھارت میں سرمایہ کاری کے اعلانات کو سراہا۔ ان کے بقول جرمنی اور بھارت ایک ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2dtGK
Deutsch-indische Regierungskonsultationen in Berlin | Angela Merkel & Narendra Modi
تصویر: Reuters/H. Hanschke

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے دورہء برلن کے دوران  کہا کہ انہیں خوشی ہے کہ جرمن کمپنیاں بھارت میں بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے لیے سرمایہ کاری کریں گی۔ برلن اور نئی دہلی حکومتوں کے مابین ہونے والی مشاورت کے دوران مودی نے مزید کہا کہ بھارتی افسر شاہی نظام یا بیوروکریسی کے مسائل سے بچنے کے لیے جرمن کمپنیوں کو ایک آسان طریقہ مہیا کیا جائے گا تاکہ انہیں اپنے سرمایہ کاری یا کاروباری منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

میرکل اور مودی نے اس موقع پر بین الاقوامی سطح پر مل جل کر کام کرنے کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا۔  تحفظ ماحول کے پیرس معاہدے پر واضح امریکی موقف سامنے نہ آنے پر میرکل نے کہا کہ بھارت اور چین جیسے ایشیائی ممالک کے ساتھ اس تناظر میں تعاون بڑھانے کا مطلب امریکی مخالفت نہیں ہے۔ ان کے بقول ایک ارب سے زائد کی آبادی والے بھارت کے ساتھ تعاون ’کلیدی اہمیت‘ رکھتا ہے۔ میرکل نے کہا، ’’جرمنی ایک منصفانہ شراکت دار بننا چاہتا ہے، باہمی روابط اور مشترکہ تعاون کے علاوہ پیرس معاہدے پر عمل درآمد کے معاملے میں بھی۔‘‘ اس موقع پر مودی نے کہا، ’’دونوں ممالک کی جانب سے مل کر کام کرنے کے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم بین الاقوامی مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

Deutsch-indische Regierungskonsultationen
تصویر: Reuters/H. Hanschke

مودی نے اپنے کئی ملکی  دورہء یورپ کا آغاز انتیس مئی کو برلن سے کیا تھا۔ ان کا یہ دورہ دونوں ریاستوں کے مابین حکومتی سطح پر مشاورت کے سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ برلن میں جب مودی نے جرمن چانسلر انگیلا میرکل سے ملاقات کی تو ان دونوں رہنماؤں کے ساتھ دونوں ملکوں کے کئی وزیر بھی اس بات چیت میں شریک تھے۔

جرمنی یورپی یونین کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہونے کے علاوہ یورپ کی سب سے بڑی اقتصادی طاقت بھی ہے اور اسی لیے اسے یورپ کا پاور ہاؤس بھی کہا جاتا ہے۔ دوسری طرف بھارت دنیا میں آبادی کے لحاظ سے دوسرا سب سے بڑا ملک ہے، جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھی ہے۔

برلن اور نئی دہلی کے مابین تجارتی تعلقات بھی بڑے گہرے اور متنوع ہیں اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ جرمنی یورپی یونین میں بھارت کا سب سے اہم تجارتی ساتھی ملک ہے۔ اس وجہ سے دونوں ممالک کے وفود کے مابین ہونے والی بات چیت میں دوطرفہ اقتصادی اور تجارتی تعلقات کے مزید فروغ ہی کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل رہی۔