1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن یہودی مشرق وسطیٰ سے آئے پناہ گزینوں سے خوفزدہ

شمشیر حیدر27 جنوری 2016

تیتیس سالہ جرمن رضاکار یوڈِتھ جی پناہ گزینوں کے ایک مرکز میں مہاجرین کی مدد میں مصروف تھی۔ جب اس نے مہاجرین کو بتایا کہ وہ یہودی مذہب سے تعلق رکھتی ہے تو اس کے منہ پر تھوکا گیا اور اسے بے عزت کیا گیا۔

https://p.dw.com/p/1HklL
Deutschland Juden jüdisches Leben Alltag
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Killig

جرمن یہودیوں کی رائے میں فرینکفرٹ کے نواح میں یوڈِتھ کے ساتھ پیش آنے والا یہ واقعہ انفرادی طرز کا نہیں ہے بلکہ یہ ان خدشات اور تحفظات کی عکاسی کرتا ہے جو زیادہ تر مشرق وسطیٰ کے اسلامی ممالک سے آنے والے تارکین وطن کے باعث جرمن یہودیوں میں پائے جاتے ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں سامیت دشمنی پر مبنی واقعات میں زیادہ تر انتہائی دائیں بازو کے جرمن شہری ملوث پائے گئے ہیں۔ جب کہ جرمنی میں مسلمان برادری کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ جرمنی آنے والے زیادہ تر تارکین وطن خود خوفزدہ ہیں اور وہ ہر قسم کے تصادم سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

لیکن اس کے باوجود جرمنی بھر میں تارکین وطن کی رضاکارانہ طور پر مدد کرنے والے یہودی خوف کے باعث حتی الامکان کوشش کرتے ہیں کہ وہ اپنی یہودی شناخت ظاہر نہ کریں۔

جرمنی میں یہودیوں کی مرکزی کونسل کے صدر یوسف شُسٹر کے مطابق، ’’مہاجرین کی بڑی تعداد ایسے معاشروں میں پلی بڑھی ہے جہاں اسرائیل کے خلاف نفرت پائی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے وہ یہودیوں کے خلاف بحیثیت مجموعی نفرت اور تعصب رکھتے ہیں۔‘‘

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ جرمنی آنے والے نوجوان پناہ گزین ایسے ممالک سے آئے ہیں جہاں عام طور پر یہودیوں اور اسرائیل کے خلاف نفرت میں پائی جاتی ہے۔ اسی لیے ان میں ممکنہ طور پر پائی جانے والی سامیت دشمن جذبات ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

جرمنی میں یہودیوں کی حفاظت کا معاملہ حساس نوعیت کا ہے۔ ہٹلر کے زمانے میں ساٹھ لاکھ سے زائد یہودیوں کو قتل کیا گیا تھا اور ہر سال ستائیس جنوری کے دن کو دنیا بھر میں ’ہولوکاسٹ میموریل ڈے‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ جرمنی میں آباد یہودیوں کی موجودہ تعداد ایک لاکھ سے کچھ زائد ہے۔

Slowenien Sentilj Erstaufnahmelager für Flüchtlinge Gebet
مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران زیادہ تر مسلمان ممالک سے تارکین وطن جرمنی آئے ہیںتصویر: DW/C. Martens

یورپی یونین کے انسانی حقوق کے ادارے کی جانب سے 2013ء کے سروے کے مطابق 64 فیصد جرمن یہودی خوف کے باعث عوامی مقامات پر اپنی شناخت ظاہر کرنے سے اجتناب کرتے ہیں۔ جب کہ اٹھائیس فیصد یہودیوں کو سامیت دشمن واقعات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

جرمنی میں مسلمانوں کی مرکزی کونسل کے سربراہ ایمن مازییک کا کہنا ہے، ’’تارکین وطن کی زیادہ تر تعداد جنگوں اور دہشت گردی کی وجہ سے اپنے وطنوں کو چھوڑ کر جرمنی آئی ہے۔ وہ لوگ تو خود ہی امن اور سکون چاہتے ہیں۔‘‘

محققین کی رائے میں جرمنی آنے والے پناہ گزینوں کو جرمن اور مغربی اقدار اور جرمنی اور یہودیوں کے تعلقات کے بارے میں تربیت اور معلومات فراہم کرنے کی ضرورت ہے اور اس ضمن میں اب تک بہت کم کوششیں دیکھی جا رہی ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید