1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جزیرہ متنازعہ اور گفتگو چلتی رہے گی!

ہما صدف‘ ڈوئچے ویلے اردو‘ بون3 مارچ 2008

اقوامِ متحدہ کے مطابق جزیرہ قبرص کی متحارب یونانی اور ترک کمیونیٹیز کے سربراہان‘ منقسم جزیرے قبرص کے اتحادِ نو کے سلسلے میںمزید گفتگو کے لئے رواں ماہ میں کسی بھی وقت ملاقات کریںگے۔

https://p.dw.com/p/DYEJ
تصویر: AP

جزیرہ قبرص کے لئے خصوصی مشن کے سربراہ‘ MICHAEL MOLLER نے قبرص کے وزیرِاعظم سے گفتگو کے بعد کہاکہ ابھی ترک قبرصی سربراہ مہمت علی طلعت کے ساتھ ملاقات کے لئے کوئی دن مختص نہیں ہوا لیکن وہ پر امید ہیں کہ یہ ملاقات مارچ میں کسی بھی وقت انجام پائے گی۔

AFP سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا ہم DEMETRIS CHRISTOFIAS‘ اور طلعت کے درمیان مارچ کے اواخر سے قبل ایک ملاقات کی تیّاری کر رہے ہیں لیکن ابھی اس ملاقات کے لئے کوئی حتمی تاریخ مقرر نہیں کی گئی۔چوبیس فروری کو کرسٹوفیاس کے صدارتی انتخابات میں کامیاب ہونے کے بعد سے ترک قبرصی رہنما اور یونانی لیڈر کے درمیان یہ پہلی ملاقات ہو گی۔ یہ ملاقات کئی دہائیوں سے جاری جزیرہءقبرص کے تنازعے کو حل کرنے کی طرف ایک اہم قدم ثابت ہو سکتی ہے۔

اس متوقع ملاقات کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے مولر نے کہا کہ صدر کرسٹوفیاس سے میری ملاقات خاصی خوش آئند تھی اور وہ نہ صرف مہمت علی طلعت سے جلد از جلد ملاقات کے خواہاں ہیں بلکہ انھوں نے مجھے اس حوالے سے کام کرتے رہنے کی تلقین کی ہے۔

سابق یونانی صدر‘TASSOS PAPADOPOULOS ‘ نے جزیرہ قبرص کودوبارہ متحد کرنے کے اقوامِ متحدہ کے منصوبے کو مسترد کر دیا تھا۔

ترکی اور قبرص کے درمیان سرحدی تنازعہ ان دونوں ہی ممالک کے لئے نقصان دہ ثابت ہورہا ہے۔ایک طرف یورپی یونین کا اصرار ہے کہ ترکی قبرص کو تسلیم کرے وہیں دوسری طرف ترکی کا یہ دیرینہ مطالبہ رہا ہے کہ پہلے اس کے زیر انتظام شمالی سائپرس پر عائد معاشی اور دیگر پابندیوں کو ختم کیا جائے۔

اس تنازعے کو ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت سے جوڑ کر دیکھا جاتا رہا ہے بلکہ اگر یوں کہیں کہ یہ تنازعے ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کے حوالے سے راستے کا سب سے بڑی رُکاوٹ ہے‘ تو بے جا نہ ہوگا۔

گُذشتہ برس یورپی یونین کے اُس وقت کے صدر ملک فن لینڈ نے یہ اعلان کیا تھا کہ ترکی قبرص کے لئے ایک بندرگاہ اور ایک فضائی اڈہ کھولنے پر راضی ہوگیا ہے تاہم اُس وقت یہ واضح نہیں ہوسکا تھا کہ اس پیشکش کے بعد ترک حکومت یورپی یونین کی دیگر شرائط کو پورا کرنے پر راضی تھی بھی یا نہیں۔

یورپی یونین کا رکن ملک بننے میں حائل دوسری بڑی رکاوٹ ترکی میں حقوق انسانی کی صورتحال ہے۔یورپی یونین کے ENLARGEMENT COMMISSIONERنے ترک حکومت سے کہا ہے کہ وہ ملک میں بنیادی حقوق کی بازیابی کے حوالے سے ٹھوس اقدامات اُٹھائیں۔برسلز میں یورپی یونین کی پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے اینلارجمنٹ کمشنر نے مزید کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ ترکی میں آزادی اظہار اور رائے کے حوالے سے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ یونانی اور ترک نسلوں کے راہنماﺅں کے درمیان رواں ماہ کے تیسرے ہفتے میں اتحاد نو کے سلسلے میں مجوزہ مزاکرات کیا رنگ لاتے ہیں۔