جلا وطن تبتیوں کے ہاں انتخابی عمل
16 مارچ 2011بھارت کے شہر دھرم شالہ میں جلا وطن تبتی حکومت کے نئے سیاسی سربراہ یعنی وزیر اعظم کا انتخاب ہزاروں تبتیوں کا امتحان بھی ہے۔ اس عمل میں دنیا بھر سے تقریباً 83 ہزار جلا وطن تبتی اپنے ووٹ ڈالیں گے۔ ایسے اندازے لگائے جا رہے ہیں کہ ابتدا میں اس عمل میں سبک رفتاری کا امکان کم ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خاصی ہلچل محسوس کی جائے گی۔ انتخابی مہم کے دوران امیدواروں میں تیونس اور مصر میں پیدا شدہ سیاسی حالات کی وجہ سے کسی تبدیلی کے لیے زبردست جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ بیس مارچ رائے شماری کے لیے مقررہ دن ہے۔
تبتیوں کے نئے سیاسی لیڈر کے لیے تین امیدوار سامنے آئے ہیں۔ تینوں عمر میں دلائی لامہ سے چھوٹے ہیں۔ ان کو نوجوان نسل کے سخت سوالات کا سامنا ہے۔ نئی نسل میں دھرم شالہ میں پیدا ہونے والی سیاسی تبدیلی پر مسرت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ پرانی نسل نئے لیڈر کے حوالے سے قدرے شک و شبہ کا شکار ہے۔ تین میں سے دو امیدوار قدرے پرجوش دکھائی دیتے ہیں اور وہ دلائی لامہ کے درمیانی سیاسی راستے کی جگہ راست اقدام کی بات کرتے ہیں۔ ان میں ایک لوب سانگ سانگھے ہیں، جنہوں نے ہارورڈ یونیورسٹی سے قانون میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔ ان کے خیال میں نئے لیڈر کو مسلم دنیا میں پیدا شدہ سیاسی بےچینی کا احساس رکھنا ہو گا۔ ان کو تنزین تیتھونگ سے سخت مقابلے کی توقع ہے۔
جلا وطن تبتی رہنما دلائی لامہ تقریباً پانچ دہائیوں سے تبتیوں کے روحانی اور سیاسی قائد تصور کیے جاتے رہے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے سیاسی منصب سے علٰیحدگی کا اعلان کیا تھا۔ ماہرین کے نزدیک نیا سیاسی لیڈر یقینی طور پر دلائی لامہ کا ہی ایک مہرہ ہی ہو گا لیکن وہ بہرحال عالمی سیاسی منظر پر تبتیوں کی حقوق کے بارے میں بات کرے گا۔ یہ امر اہم ہے کہ سن 2001 کے بعد پہلی مرتبہ کوئی نیا لیڈر عوامی ووٹوں سے منتخب کیا جائے گا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ دلائی لامہ کی پشت پناہی کے ساتھ ایک مضبوط وزیر اعظم عالمی سطح پر چینی حکومت کے لیے پریشانی کا باعث ہو سکتا ہے۔
دوسری جانب ممکن ہے کہ دلائی لامہ کا مسکراتا چہرہ سیاسی طور پر عوام کے اور اقوام کے سامنے اگلے برسوں میں کم دکھائی دے۔ پچھتر سالہ دلائی لامہ ساٹھ لاکھ تبتیوں کے روحانی لیڈر بدستور رہیں گے۔ تبتی اُنہیں مہاتما بدھ کا اوتار خیال کرتے ہیں۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: امجد علی