1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جلد کو سنولانا یا ٹین کرنا: عِلت یا سرُور

عابد حسین26 اگست 2015

دنیا کے کئی ملکوں میں گوری خواتین اپنی جلد کو گندمی یا سانولا بنانے کی کوشش کرتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اِس عمل سے جلد کے کینسر کا امکان ہے۔ عالمی ادارہٴ صحت نے واضح کیا ہے کہ الٹرا وائلٹ ریز کینسر پیدا کرتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1GLqL
تصویر: Getty Images

ترقی یافتہ ملکوں کے ساتھ ساتھ کئی اور دوسرے ملکوں میں خواتین اپنی سفید رنگت کو سانولا یا ’’ٹین‘‘ کروانے کے لیے گھنٹوں سورج کی روشنی میں رہتی ہیں۔ ایسی خواتین ساحلی علاقوں کی سیر وسیاحت بہت مسرت کے ساتھ کرتی ہیں۔ کئی خواتین اپنے اپنے شہروں میں مصنوعی حدت یا تمازت حاصل کر کے اپنی رنگت کو ’’ٹین‘‘ کرواتی ہیں۔ شہروں کے مصنوعی مراکز خواتین کی جلد کو سانولا کرنے کے لیے الٹرا وائلٹ شعاؤں کا استعمال کرتے ہیں۔ ایک دلچسپ سروے کے مطابق اسپین کا دارالحکومت میڈرڈ سال بھر میں پونے تین ہزار گھنٹے دھوپ حاصل کرتا ہے لیکن اِس کے باوجود خواتین الٹرا وائلٹ شعاؤں سے بھی خود کو گندمی بنانے کی جُستُجوکرتی ہیں۔ سالانہ بنیادوں پر اسپین میں 35 سو افراد میں جلدی کینسر کی تشخیص کی جا رہی ہے۔

اسپین کے جلدی امراض کی اکیڈمی کے ماہر خوصے مانویل روڈرگ نے واضح طور پر کہا کہ جلد کو ’’ٹین‘‘ کروانا حقیقت میں نشے کی طرح ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ یہ ویسی ہی کیفیت ہے، جس کا شکار کئی ایسی خواتین یا ماڈل گرلز ہو جاتی ہیں، جنہیں دُبلا پتلا ہونے کے باوجود موٹاپے کا وہم ہوتا ہے اور اِس باعث وہ خود کو مزید دبلا بنانے کے شوق میں ’’کم اشتہائی‘‘ یا ’’انوریکزیا‘‘ کی مریضہ بن کر رہ جاتی ہیں۔ امریکی ریاست جنوبی کیرولینا کی وَیک فوریسٹ یونیورسٹی کے جِلدی امراض کے پروفیسر اسٹیو فیلڈ مین کا خیال ہے کہ خود کو سانولا بنانے والے اپنے روپ کا دوسروں کے ساتھ موزانہ کرنے میں الجھے رہتے ہیں اور اِس عمل میں وہ سکون بھی حاصل کرتے ہیں۔ فیلڈ مین کا کہنا ہے کہ سورج کی روشنی یا الٹرا وائلٹ ریز انسانی جسم کے اعصابی نظام کو تحریک دیتی ہیں۔ اُن کے مطابق ہارمونز اور اینڈورفِنز کی تحریک سے سکون اور مسرت کا احساس انسانی جسم میں بڑھ جاتا ہے۔

Solarium
ماہرین کے مطابق اِس عمل سے جلد کے کینسر کا امکان۔تصویر: picture-alliance/dpa

دنیا بھر میں ’’ٹین‘‘ کروانے کے مصنوعی مراکز سن 1980 میں امریکا میں قائم ہونا شروع ہوئے تھے۔ اِن کے قیام کے بعد سے ریسرچرز کا خیال ہے کہ آج کل ’’ٹین‘‘ کروانا عِلت یا رسیا ہونے کے مساوی ہو چکا ہے۔ سانولا بنانے کے مصنوعی مراکز کے قیام کے بیس برس بعد یعنی سن 2000 میں ’’ٹینو ریکزیا‘ یا Tanorexia کی ترکیب کو متعارف کروایا گیا۔ امریکی ریاست ایسٹ ٹینیسی اسٹیٹ یونیورسٹی کے پبلک ہیلتھ شعبےکے پروفیسر جوئل ہِل ہاؤس کا کہنا ہے کہ ’’ٹین‘‘ کروانا یا گندمی بنانا کا عمل پہلے شوق اور پھر عادت بن جاتی ہے۔ ہِل ہاؤس کے مطابق یہ عادت بالکل ہیروئن کے نشے جیسی ہے اور ایک شدید خواہش انسان کو مجبور کرتی ہے کہ وہ بدن کو مصنوعی تمازت کے مرکز میں لے کر جائے اور الٹرا وائلٹ شعاؤں میں نہائے۔ پروفیسر ہل ہاؤس کے خیال میں کئی افراد اس کے بغیر اظطراب اور بے چینی محسوس کرتے ہیں۔

عالمی سطح پر ’’ٹین‘‘ کروانے کے لیے مصنوعی تمازت یا الٹرا وائلٹ ریز کے استعمال سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں سے آگاہ کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے۔ عالمی ادارہٴ صحت نے سن 2012 میں ٹیننگ میں استعمال ہونے والے اُن آلات کو کینسر کا سبب قرار دے دیا ہے، جن سے الٹرا وائلٹ ریز انسانی بدن پر ڈالی جاتی ہیں۔ برازیل دنیا کا پہلا ملک ہے، جہاں الٹرا وائلٹ ریز یا مصنوعی تمازت سے جلد کی ‘‘ٹیننگ‘‘ غیر قانونی قرار دی جا چکی ہے۔ سن 2014 میں آسٹریلیا نے بھی ایسے مراکز کو غیر قانوی قرار دے دیا ہے، جہاں مصنوعی تمازت سے شوقیہ افراد کو گندمی بنایا جاتا تھا۔ یہ امر اہم ہے کہ آسٹریلیا میں جلد کے کینسر کے مریض دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہیں۔ آسٹریلیا کی نیشنل اسکن کینسر کمیٹی کی سربراہ وینیسا راک کے مطابق اُن کے ملک میں الٹرا وائلٹ ریز کے استعمال سے جلدی سرطان میں بیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔