1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جماعت اسلامی کے رہنما کے لیے سزائے موت کی توثیق

مقبول ملک5 مئی 2016

بنگلہ دیشی سپریم کورٹ نے عشروں پہلے ملک کی آزادی کی جدوجہد کے دوران جرائم کے ارتکاب کے الزام میں جماعت اسلامی کے رہنما اور ملک کے اہم ترین اسلام پسند سیاستدان مطیع الرحمان نظامی کو سنائی گئی سزائے موت کی توثیق کر دی ہے۔

https://p.dw.com/p/1IiaN
Bangladesch Matiur Rahman Nizami Parteichef von Jamaat-e-Islami
مطیع الرحمان نظامیتصویر: Getty Images/AFP

دارالحکومت ڈھاکا سے جمعرات پانچ مئی کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق نظامی کے خلاف 1971ء میں بنگلہ دیش کے نام سے ایک خود مختار ریاست کے طور پر پاکستان سے علیحدگی کی جدوجہد کے دوران جرائم کے ارتکاب کے الزامات ثابت ہو گئے تھے۔

انہیں ملک کی ایک اعلیٰ عدالت نے سزائے موت کا حکم سنایا تھا، جس کے خلاف مطیع الرحمان نظامی کی طرف سے بنگلہ دیشی سپریم کورٹ میں پہلے ایک مقدمہ اور پھر ایک اپیل دائر کی گئی تھی۔ آج جمعرات کے روز سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ایس کے سنہا نے یہ اپیل مسترد کرتے ہوئے نظامی کو سنائی گئی سزاے موت کی توثیق کر دی۔

نظامی بنگلہ دیشی مسلمانوں کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی ’جماعت اسلامی‘ کے سربراہ ہیں اور عدالت کے مطابق ان کے خلاف 1971ء میں قتل، جنسی زیادتی اور ملک کے سرکردہ دانشوروں کے قتل کی منصوبہ بندی کے الزامات ثابت ہو چکے ہیں اور ان سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

اعلیٰ ترین ملکی عدالت کے آج کے اس فیصلے سے قبل ڈھاکا میں کل بدھ چار مئی سے ہی حکام نے جماعت اسلامی کے کارکنوں کی طرف سے ممکنہ پرتشدد احتجاجی مظاہروں کی روک تھام کے لیے سخت ترین حفاظتی انتظامات کر رکھے ہیں۔ اے ایف پی نے لکھا ہے کہ نظامی کے لیے جنگی جرائم کے الزامات کے تحت سزائے موت کے عدالتی حکم کی سپریم کورٹ کی طرف سے توثیق کے بعد اب اس سیاسی رہنما کو چند دنوں کے اندر اندر پھانسی دیے جانے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔

Matiur Rahman Nizami Bangladesch Festnahme Archiv 2010
بنگلہ دیشی جماعت اسلامی کے رہنما مطیع الرحمان نظامی کو جون 2010ء میں گرفتار کیا گیا تھاتصویر: AFP/Getty Images

ڈھاکا کی میٹروپولیٹن پولیس کے ترجمان معروف حسین نے بتایا کہ دارالحکومت میں پولیس کی اضافی نفری کی تعیناتی کے ساتھ سکیورٹی مزید سخت کر دی گئی ہے تاکہ 73 سالہ نظامی کو پھانسی دیے جانے کی صورت میں اسلام پسندوں کے ممکنہ پرتشدد مظاہروں کو روکا جا سکے۔

استغاثہ کے مطابق مطیع الرحمان نظامی 1971ء میں بنگلہ دیش کی آزادی کی جدوجہد کے دوران ایک ملیشیا رہنما تھے، جن کی قیادت میں مسلح افراد نے سابقہ مشرقی پاکستان کی آزادی کے حامیوں کو نشانہ بنایا تھا۔

جماعت اسلامی کے اس رہنما کو سنائی گئی سزائے موت کی ڈھاکا میں سپریم کورٹ نے ایک مقدمے کی سماعت کے بعد اس سال جنوری میں باقاعدہ توثیق کر دی تھی۔ آج سنائے گئے فیصلے میں اس سزا کے خلاف نظامی کی حتمی اپیل بھی خارج کر دی گئی۔

بنگلہ دیش میں آزادی کی جدوجہد کی دوران جنگی جرائم کے ارتکاب کے جرم میں اب تک جماعت اسلامی کے متعدد موجودہ یا سابقہ عہدیداروں کو پھانسی دی جا چکی ہے۔ سزائے موت پر عملدرآمد کا ایسا ہر واقعہ پرتشدد مظاہروں کی وجہ بنا تھا۔ بدامنی کے ایسے واقعات میں بنگلہ دیش میں اب تک مجموعی طور پر قریب 500 افراد مارے جا چکے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں