جنسی دھندہ: سوشل میڈیا پر نوجوان لڑکیوں کے لیے جال
17 نومبر 2015پریشان حال نوجوان لڑکیوں کو پھانسنے کے لیے جنسی کاروبار کے گھناؤنے کھیل میں ملوث افراد ہمہ وقت مصروف ہیں۔ یہ گھاگ لوگ انسٹاگرام، فیس بُک، کِک، ٹیگڈ، ٹویٹر کے ساتھ ساتھ واٹس اپ اور اسنیپ چیٹ کے ذرائع پر رہتے ہوئے پریشان حال لڑکیوں کا کھوج لگاتے ہیں۔ جہاں کہیں کوئی پریشان حال ٹین ایجر اپنے ’خود ساختہ‘ دکھوں اور پریشانیوں کا اظہار کرتی نظر آتی ہے، ان میں سے کوئی بھی اُس کا ہمدرد بن کر دل جیتنے کی کوشش کرتا ہے۔ جب ایسی لڑکی اُن کے ہاتھ چڑھ جاتی ہے تو پھر اُس کو جسم فروشی کی مارکیٹ میں بیچنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔
امریکی لڑکی نکول بھی ایسی ہی ایک ٹین ایجرز ہے، جو پریشانی میں کسی ایسے چالاک مرد کے ہاتھ لگ گئی تھی۔ اُس کو فیس بُک پر کسی شخص نے ہمدردی کے ایسے میٹھے بول سنائے کہ وہ اُس کی جانب امڈ گئی۔ نکول کی پریشان اُس وقت ہوئی، جب اُس کی والدہ کو کسی معمولی جرم کے نتیجے میں جیل بھیج دیا گیا تھا۔ سترہ برس کی ٹین ایجر نکول نے ایک اجنبی سے اپنی پریشانی شیئر کی اور پھر اِس جال میں ایسی پھنسی کہ امریکی ریاست ٹیکساس سے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی تک کئی شہروں میں بکتی چلی گئی۔ وہ تین چار برس تک جسم فروشی کے کاروبار میں کھلونا بنی رہی۔ ایک مرتبہ زبردستی جنسی آبروریزی میں شدید زخمی ہونے کے بعد وہ اُن کے چنگل سے نکل پائی۔
نکول نے اپنی دردناک کہانی ویمن کانفرنس برائے انسدادِ ٹریفکنگ کے پلیٹ فارم پر سنائی۔ نکول کو ایک امریکی غیر سرکاری تنظیم فیئر گرلز کی بانی اور ڈائریکٹر آندریا پاول کا سہارا بھی حاصل ہوا ہے۔ امریکی دارالحکومت میں خواتین کی جسم فروشی کے لیے غلاموں کے انداز میں خرید و فروخت کے انسداد اور خواتین کے حقوق کے لیے منعقدہ کانفرنس کا اہتمام تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن نے کیا تھا۔ پاول کے مطابق واٹس اپ یا اسنیپ چیٹ جیسے فورم پر پیغام بھیجتے وقت اِس کا احساس کرنا چاہیے کہ وہ کسی جنسی اسمگلر کے ہتھے چڑھ سکتے ہیں اور ایک میسج سے کسی بھی ٹین ایجر یا نوجوان عورت کی ساری زندگی تباہ ہو سکتی ہے۔
سول سوسائٹی کے سرگرم کارکنوں کے مطابق سماجی رابطے کی ویب سائٹس اب خواتین کی اسمگلنگ میں ملوث افراد کے لیے وسیع میدان ہے اور یہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے چیلنج بن گیا ہے لیکن ابھی تک کوئی مثبت پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے۔ یورپی یونین کی پولیس ایجنسی یوروپول کے ایک اہلکار کے مطابق سوشل میڈیا اور آن لائن ٹیکنالوجی کے ذریعے جسم فروشی کے لیے گاہکوں کا حصول اور نئی بھرتی عام ہو چکی ہے۔ انسانی اسمگلر اپنے جال میں پھنسی لڑکیوں کی باقاعدگی سے نگرانی کرتے ہیں کہ وہ کیسی میسجنگ کرتی ہیں۔ برطانیہ کی نیشنل کرائمز ایجنسی کے مطابق سوشل میڈیا پر جسم فروشی اور لڑکیوں کی اسمگلنگ ایک نیا رجحان ہے اور اِس مناسبت سے متاثرہ خواتین کا کوئی حتمی ڈیٹا میسر نہیں ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے انٹرنینشل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق عالمی سطح پر اکیس ملین افراد اسمگلروں کے ہتھے چڑھ چکے ہیں۔ دنیا میں سیکس ورکر یا جسم فروشی کی مارکیٹ کا حجم 150 بلین ڈالر لگایا جاتا ہے۔ امریکی غیر سرکاری تنظیم فیئر گرلز کے مطابق اُس نے امریکی دارالحکومت اور قریبی ریاست میری لینڈ میں سے نوے فیصد متاثرہ لڑکیوں کو ڈھونڈ نکالا ہے اور ان کا نفسیاتی علاج جاری ہے کیونکہ وہ جسم فروشی کے دھندے کی نگرانی کرنے والوں کے جبر کا مسلسل نشانہ بنتی رہی ہیں۔ ویمن کانفرنس میں کئی شرکاء کا خیال تھا کہ ٹین ایجرز اور بچے محبت اور شفقت کے میٹھے الفاظ کے جال میں ایسے پھنستے ہیں کہ دوبارہ نارمل زندگی میں اُن کی واپسی کی امید نہیں رہتی۔