1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’جنسی زيادتی کا شکار خواتين بھارتی رقص سے بہتر ہو سکتی ہیں‘

عابد حسین24 فروری 2016

ایک ریسرچ کے مطابق کلاسیکل بھارتی رقص ’ریپ‘ شدہ خواتین کو نفسیاتی پریشانیوں سے نجات کا سبب بن سکتا ہے۔ ایسے رقص سے جنسی زیادتی یا انسانی اسمگلنگ کی شکار ہونے والی خواتین کو ہمت ملتی ہے کہ وہ نارمل زندگی شروع کر سکیں۔

https://p.dw.com/p/1I0zy
تصویر: DW/A. Chakraborty

بھارتی شہر کولکتہ میں قائم ایک خیراتی ادارے کولکتو سانوید کی بانی اور ڈائریکٹر سوہینی چاکروبارتی کا کہنا ہے کہ انسانی اسمگلنگ یا جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کے حوالے سے ایک پہلو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے کہ اِس ذہنی و جسمانی صدمے سے متاثرین کا بدن اور روح بھی انتہائی منفی اثرات سے دوچار ہو جاتی ہے۔ کولکتہ سانوید نے ہی کلاسیکل بھارتی رقص سیکھنے اور پھر اِس کی بھرپور مشق نے ریپ جیسے واقعات کا سامنا کرنے والی عورتوں کی اعتماد بحالی کے عمل کو آگے بڑھایا ہے۔ اِس عمل پر اب ایک ریسرچ بھی مکمل کر لی گئی ہے۔

کولکتہ سانوید نے گزشتہ چھ ماہ کے دوران پچاس متاثرہ خواتین کی بحالی کے عمل کو اپنی ریسرچ کا حصہ بنایا۔ متاثرہ خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کا ارتکاب ممبئی اور کولکتہ کے شہروں میں کیا گیا تھا۔ ان خواتین کو خیراتی ادارے کے مرکز میں سہولت فراہم کی گئی کہ وہ کلاسیکل رقص سیکھ کر اِسے اپنی روز مرہ کی زندگی کا حصہ بنائیں۔ محققین کو حیرت اور مسرت ہوئی کہ مسلسل رقص سیکھنے اور بھرپور مشقوں سے متاثرہ خواتین کے اندر ’اینگزائٹی‘ يا پریشانی و بےچینی کی کیفیت میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔

Birju Maharaj
کتھک ڈانس کے ماہر برجو مہارج ایک خاتون کو رقص کی تربیت دیتے ہوئےتصویر: AP

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپوں اور کارکنوں کا خیال ہے کہ جنسی زیادتی کا شکار ہونی والی خواتین کی بحالی کا عمل ناکافی ہونے کے ساتھ ساتھ غیر پائیدار بھی ہے کیونکہ بھارتی سماج ایسی خواتین کی حوصلہ افزائی سے قدرے محروم دکھائی دیتا ہے۔ سوہینی چکروبارتی نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ رقص خالصتاً جسم سے متعلق ہوتا ہے اور خواتین کسی حد تک رقص کی مختلف قسموں سے آگاہ ہوتی ہیں اور اِس کو بھرپور محویت سے کرنے کا نتیجہ جسم کے دکھ درد میں کمی ہونے کے ساتھ پژ مردہ روح میں بہتری کی صورت میں نکلتا ہے۔ چکروبارتی کے مطابق کتھک ڈانس میں پاؤں کی حرکت ایک عورت کے جسم کے ساتھ ساتھ روح میں تبدیلی کی مظہر ہوتی ہے۔

بھارت کے نیشنل کرائمز ریکارڈ بیورو کے مطابق سن 2014 میں تین لاکھ تیس ہزار خواتین کو جنسی زیادتی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ گزشتہ برس بھارت میں انتہائی وسیع پیمانے پر انسانی اسمگلنگ اور جنسی زیادتی کا شکار ہونے والوں کے حوالے سے ایک سروے مکمل کیا گیا تھا۔ اِس نیشنل سروے کے نتائج سے ظاہر ہوا کہ ایسے افسوسناک واقعات میں متاثر ہونے والی خواتین کو جسمانی اور نفسیاتی عوارض کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اِسی تناظر میں ڈانس تھراپی کے تصور کو تقویت حاصل ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں بھارت کے اندر امریکی ڈانس تھراپی ایسوسی ایشن کا کردار بھی انتہائی مثبت رہا ہے۔ کولکتہ سانوید کی ڈانس تھراپی کی ریسرچ کی نگران ڈاکٹر اپالی دیس گپتا ہیں اور اُن کا خیال ہے کہ رقص سے جسمانی و روحانی بالیدگی حاصل ہوتی ہے اور رقص تھراپی بھارتی معاشرت سے بہت ہم آہنگ ہے۔