1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی افریقہ میں غیر ملکی باشندوں پرتشدد

19 مئی 2008

جنوبی افریقہ میں،مقامی باشندوں کی طرف سے ، تارکین الوطن کے خلاف، گزشتہ ہفتے سے شروع ہونے والے تشدد میں اب تک بائیس افراد ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہو چکے ہیں۔

https://p.dw.com/p/E2hb
جنوبی افریقہ کے باشندے ہاتھ میں ہتھیار لیے غیر ملکیوں کی تلاش میںتصویر: AP

جنوبی افریقہ کے مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ زمبابوے ، موزمبیق اور دیگر ہمسایہ ممالک سے لوگ جنوبی افریقہ کا رخ کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں ایک طرف تو ملک میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا ہے تو دوسری طرف ملک کے محدود وسائل کے باعث ، مقامی لوگوں کے لئے ملازمتوں کے مواقعوں میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔

گزشتہ ہفتے ، جوہانسبرگ کے گرد ونواح میں شروع ہونے والے ان تشددآمیز واقعات میں اس وقت شدت آئی جب مقامی لوگوں نے غیر ملکیوں کے خلاف جوہانسبرگ میں بھی کاروائی کا آغاز کیا۔ گزشتہ ویک اینڈ جوہانسبرگ ایک تباہ حال جنگ زدہ علاقے کا نقشہ پیش کر رہا تھا۔ پولیس، مرکزی شہر میں مداخلت پر مجبور ہوئی تاکہ غیر ملکیوں کو مقامی آبادی کے غلبے سے بچایا جا سکے۔

پولیس نے اس کاروائی میں آنسو گیس کے گولوں سمیت ربڑ کی گولیوں سے مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی۔ اس دوران پولیس نے تقریبا ۲۰۰ افراد کو گرفتار بھی کیا۔ دریں اثنا جنوبی افریقہ میں تارکین وطن نے پولیس اسٹشنوں، سرکاری دفاتر اور گرجا گھروں میں پناہ لے کر اپنی جان پچائی۔

Südafrika Jagd auf Ausländer aus Simbabwe Polizist
جوہانسبرگ کے نواحی علاقے میں ایک نامعلوم شخص ، مقامی باشندوں سے مار کھانے کے بعدتصویر: AP

اطلاعات کے مطابق جنوبی افریقہ میں زیادہ تر غیر ملکی افراد کا تعلق ہمسایہ ملک زمبابوے سے ہے جو اپنے ملک میں جاری سیاسی بحران ، غربت ، بے روزگاری اور جرائم کے خوف سے نقل مکانی کر کے جنوبی افریقہ پہنچے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت تین ملین زمبابوے کے باشندے ،جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیموں نے جنوبی افریقہ حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ انتظامیہ نے اس تشدد کو روکنے کے لئے کوئی منظم کوشش نہیں کی ۔ جبکہ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ جنوبی افریقہ میں غربت، بے روزگاری اور جرائم کی بڑھتی ہوئی صورتحال کو غیر ملکیوں کی آمد سے نتھی کر کے انہیں قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔

جنوبی افریقہ میں غیر ملکیوں کے خلاف ایسا آپرشن پہلی مرتبہ نہیں ہوا بلکہ زینو فوبیا یا غیر ملکیوں سے غیر ضروری خوفزدہ ہوکر انہیں تشدد کا نشاہ بنانا ، جنوبی افریقہ میں پہلے بھی نظر آتا ہے۔ سن انیس سو نوے کے اواخر میں بھی ایسے واقعات سامنے آئے تھے لیکن ان پر قابو پا لیا گیا تھا۔

بعد ازاں سن دو ہزار پانچ اور چھ میں بھی ملک کے مغربی اور مشرقی علاقوں میں صومالوی باشندوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ لیکن اس مرتبہ تشدد کی لہر کافی زیادہ سنجیدہ نظر آ رہی ہے۔

Thabo Mbekis
جنوبی افریقہ کے صدر تھیبو ایم بیکیتصویر: AP

جنوبی افریقہ کے صدر تھیبو ایم بیکی نے کہا ہے کہ اس تشدد کی وجوہات تلاش کرنے اور ملزمان کو سزا دینے کے لئے ایک ٹاسک فورس تشکیل دیا جائے گا۔

آرچ بشپ ڈیسمنڈ توتو نے اپیل کی ہے کہ جنوبی افریقہ میں جاری اس تشدد کو ختم کیاجائے۔

واضح رہے کہ یہ تشدد آمیز واقعات اس بات کی غمازی کر رہے ہیں کہ جنوبی افریقہ کی نئی حکومت شہریوں کو ملازمتیں، گھر اور تعلیمی ادارے دینے میں ناکام ہو گئی ہے۔