1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی اور شمالی کوریا کے مابین پھر سے بات چیت

8 فروری 2011

گزشتہ سال نومبر میں ایک جنوبی کوریائی جزیرے پر شمالی کوریا کی گولہ باری اور چار افراد کی ہلاکت کے بعد سے آج دونوں کوریاؤں کے درمیان پہلی مرتبہ مذاکرات عمل میں آئے۔ یہ مذاکرات کل بدھ کو بھی جاری رہیں گے۔

https://p.dw.com/p/10CvO
تصویر: DW/radoman - Fotolia.com

آج کئی گھنٹے تک دونوں ملکوں کے وفود اِس موضوع پر تبادلہء خیال کرتے رہے کہ جزیرہ نمائے کوریا پر پائی جانے والی کشیدگی کو کیسے کم کیا جا سکتا ہے۔ جنوبی اور شمالی کوریا کے فوجی افسران کی یہ ملاقات ایک سرحدی گاؤں پن من یوم کی اُس عمارت میں میں عمل میں آئی، جسے ’پِیس ہاؤس‘ کہا جاتا ہے۔ اِس ملاقات کا مقصد اُس مجوزہ اعلیٰ سطحی فوجی ملاقات کی تیاریاں بھی کرنا تھا، جس کی تاریخ ابھی طے ہونا باقی ہے۔ ایجنڈے پر عدم اتفاق کے باعث آج کا یہ اجلاس دیر گئے تک جاری رہا۔

ویانا یونیورسٹی کے کوریائی امور کے ماہر روڈیگر فرانک کے مطابق:’’ایک طرف تو جنوبی کوریا کے لیے آج کل کے حالات میں شمالی کوریا کے قریب جانا بہت زیادہ مشکل ہے، گزشتہ سال پیش آنے والے واقعات کے باعث اور اُس بیان بازی کے باعث، جس میں کبھی کوئی ایک موقف اختیار کیا جاتا ہے اور کبھی دوسرا۔ لیکن دوسری طرف دونوں ہی ملک مذاکرات کا راستہ اختیار نہ کرنے کے بھی متحمل نہیں ہو سکتے۔‘‘

Moon Sang-gyun Südkorea und Ri Sun Gyun Nordkorea
پن من یوم نامی سرحدی گاؤں ہی میں دونوں ملکوں کے اعلیٰ فوجی افسران کی ایک ملاقات تیس ستمبر 2010ء کو بھی عمل میں آئی تھیتصویر: AP

23 نومبر کو متنازعہ بحیرہء زرد کے قریب واقع جنوبی کوریائی جزیرے یون پیونگ پر بمباری کے نتیجے میں دو فوجی اور دو عام شہری مارے گئے تھے اور دونوں کوریائی ریاستیں ایک بڑی جنگ کے دہانے پر پہنچ گئی تھیں۔ جنوبی کوریا اپنے شمالی ہمسایہ کمیونسٹ ملک کو گزشتہ سال مارچ کے اُس واقعے کا بھی ذمہ دار قرار دیتا ہے، جس میں ایک جنوبی کوریائی بحری جنگی جہاز کو تارپیڈو کے ذریعے غرق کر دیا گیا تھا اور اُس پر موجود 46 سیلرز ہلاک ہو گئے تھے۔ شمالی کوریا اِس الزام کو مسترد کرتا ہے۔

آج کے اجلاس میں سیول حکومت کے وفد کا اصرار تھا کہ مجوزہ فوجی ملاقات میں یہ دونوں حملے زیرِ بحث لائے جائیں اور یہ کہ پیونگ یانگ حکومت اِن واقعات پر معافی مانگنے کے ساتھ ساتھ ذمہ دار عناصر کو سزا بھی دے۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق جواب میں شمالی کوریا نے ان واقعات کے بارے میں اپنا نقطہء نظر بیان کرنے کے ساتھ ساتھ یہ موقف اختیار کیا کہ کوریائی جزیرہ نما میں کشیدگی کم کرنے کے لیے زیادہ وسیع ایجنڈا تشکیل دیا جانا چاہیے۔ شمالی کوریا نے جنوبی کوریا کے کچھ سرگرم شہریوں کی جانب سے پمفلٹ سرحد پار پہنچانے کا سلسلہ ختم کیے جانے پر زور دیا اور جنوبی کوریا کے جنگی بحری جہازوں پر اپنی سمندری حدود کی خلاف ورزی کا الزام بھی عائد کیا۔

Südkorea Navy Schiff gesunken Flash-Galerie
جنوبی کوریائی فوجی مارچ 2010ء میں ایک تارپیڈو حملے کے نتیجے میں غرق ہونے والے جنوبی کوریائی جنگی بحری جہاز میں ممکنہ طور پر زندہ بچ جانے والے سیلرز کو تلاش کر رہے ہیںتصویر: AP

جنوبی کوریا کے وفد نے کہا تھا کہ آج کے اِس اجلاس میں وہ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ پیونگ یانگ حکومت امن اقدامات کے حوالے سے کتنی مخلص ہے۔ گزشتہ سال دسمبر میں امریکی ریاست نیو میکسیکو کے گورنر بل رچرڈسن نے پیونگ یانگ کے ایک دورے کے بعد کہا تھا:’’شمالی کوریا ایٹمی توانائی کے بین الاقوامی ادارے کو یون پیونگ کی تنصیبات تک رسائی فراہم کرنے کے لیے تیار ہے تاکہ وہ اِس بات کی تسلی کر سکے کہ وہاں کوئی یورینیم افزودہ نہیں کیا جا رہا۔‘‘

گزشتہ سال کوریائی جزیرہ نما پر ایٹمی جنگ سے خبردار کرنے والے ملک شمالی کوریا نے گزشتہ مہینے اچانک اپنی حکمت عملی میں تبدیلی پیدا کی اور مکالمت کی پَے در پَے کئی اپیلیں جاری کیں۔ آج کا اجلاس ایک ایسے وقت پر عمل میں آیا ہے، جب شمالی کوریا کے اہم حلیف چین نے خطے میں ایٹمی تخفیفِ اسلحہ کے لیے چھ فریقی مذاکرات کا سلسلہ بحال کرنے پر زور دیا ہے۔ شمالی کوریا اپریل 2009ء میں اِن مذاکرات سے الگ ہو گیا تھا۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں