1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی ایشیا اس ہفتے جرمن اخبارات میں

27 مارچ 2009

اس ہفتے بھی جرمن اخبارات میں پاکستان میں بحالی عدلیہ کے بعد عدلیہ اور ایوان صدر کے درمیان ممکنہ ٹکراؤ، پاکستان میں عسکریت پسندوں کی کارروائیاں اوربھارت کی نینو کار وغیرہ کو مرکزی حیثیت حاصل رہی۔

https://p.dw.com/p/HLL7
تصویر: AP

پاکستان ميں چیف جسٹس افتخارچوہدری کو ان کے عہدے پر بحال کرديا گيا ہے۔ اخبارزيود دوئچے سائٹنگ تحريرکرتا ہے کہ يہ صدرزرداری کے لئے خطرناک ہوسکتا ہے۔ اگر جسٹس چوہدری اپنے سابقہ دور کی طرز پرآگے بڑھتے رہيں گے، تو وہ زرداری کو مشکلا ت سے دوچار کرسکتے ہيں۔ اگر وہ معافی کے اس متنازعہ قانون کو کا لعدم قرارديتے ہيں جس کی بنياد پر زرداری ڈيڑھ سال قبل سزا سے بچ کر پاکستان واپس آئے تھے، تو پھر زرداری کے خلاف کرپشن کے الزامات اچانک دوبارہ نئی شکل اختيار کر سکتے ہيں۔ ابھی تک چوہدری اس بارے ميں اپنے خيالات خود اپنی حد تک رکھے ہوئے ہيں۔ غالبا وہ اپنا کام کرتے رہنا چاہتے ہيں، جيسا کہ وہ پرويز مشرف کے تحت کرتے رہے تھے۔ مشرف نے انہيں اس لئے اس عہدے پر مقرر کيا تھا تاکہ وہ ان سے اپنی مرضی کے کام کرا سکيں۔ چوہدری، سخت، متلون مزاج اور ناقابل اندازہ سمجھے جاتے ہيں، اس لئے وہ کچھ بھی کرسکتے ہيں۔

اخبار برلينرساسٹنگ نے پاکستانی صحافی اور رپورٹر احمد رشيد سے پاکستان کی صورتحال پر گفتگو کی ہے۔ افغانستان کے طالبان کو پاکستان ميں پناہ گاہيں حاصل ہيں۔ جب تک بين الاقوامی خفيہ ادارے مل جل کراس مسئلے پر توجہ نہيں ديتے، اس وقت تک دہشت گردی کے خطرات ميں اضافہ ہوتا رہے گا۔ جرنلسٹ احمد رشيد نے يہ بھی کہا کہ يورپيوں کو اپنی آنکھيں کھولنا چاہئيں۔ حقيقت يہ ہے کہ نيٹو کو شکست ہورہی ہے اورطالبان جيت رہے ہيں۔ افغان شہری اس صورتحال ميں پس رہے ہيں۔ صرف افغانستان کو توجہ کا مرکز نہيں ہونا چاہئے۔ ايک علاقائی پاليسی کی ضرورت ہے جس ميں افغانستان کے پڑوسی ملکوں، خاص طور سے ايران اورپاکستان کوشامل کرنا چاہئے۔ بھارت کا کردار بھی اہم ہے۔ طالبان پورے علاقے ميں پھيلتے جارہے ہيں۔ اس لئے مغربی ملکوں کو يہ جنگ ختم کرنے کے لئے اپنی کوششوں ميں اضافہ کرنا چاہئے۔

بھارت کے حوالے سے پچھلے ہفتے کا سب سے بڑا موضوع ٹاٹا کمپنی کی نئی کارنانو تھا۔ ٹاٹا کمپنی، آٹوموبائل کی عالمی صنعت کی نچلی سطح پر ايک لاکھ روپے کی قيمت والی نینو کار کے ذريعہ ايک انقلاب لانا چاہتی تھی۔ ليکن اقتصادی بحران اورکساد بازاری نے مشکلات پيدا کی ہيں۔ اس دوران ٹاٹا، بھارت کی سب سے زيادہ مقروض بڑی کمپنی ہے۔ ماہرين کا اندازہ ہے کہ ٹاٹا کو اپنی چھوٹی کار سے ايک روپے کا منافع کمانے سے پہلے سن 2015 تک کم ازک پندرہ لاکھ گاڑياں فروخت کرنا ہوں گی۔ اگرچہ نینو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا کاربن ڈائی آکسائڈ کا اخراج بہت سی موٹر سائيکلوں سے بھی کم ہے، ليکن اس کے ذريعہ کار کا عام استعمال، تحفظ ماحول کے حاميوں کے لئے ايک بھيانک خواب کا درجہ رکھتا ہے۔

اخبار ہانڈلس بلاٹ لکھتا ہے کہ نینو کی مہم جوئی ميں ٹاٹا کے لئے بڑے خطرات ہيں۔ ابھی يہ ثابت ہونا باقی ہے کہ کيا ايک چھوٹی کارسے منافع حاصل کيا جاسکتا ہے۔ ٹاٹا موٹرزبہت زيادہ مقروض ہے اور نینو کے خسارے کے دور سے نکلنے تک کے لئے اس کے پاس کسی قسم کا محفوظ سرمايہ نہيں ہے۔

اخبار نوئے سيورشرسائٹنگ تحرير کرتا ہے کہ سستی کارنینو ہاتھوں ہاتھ بکے گی۔ بھارت کی ایک ارب کی آبادی ميں سے بہت کم کے پاس کار ہے۔ لاکھوں کے لئے، جن کے پاس اب تک صرف موٹز سائيکل ہے، نینو بالکل نئے امکانات لائے گی۔

ہفت روزہ ڈی سائٹ لکھتا ہے کہ اقتصادی بحران نے بھارت کو سخت متاثر کيا ہے، ليکن بھارت نے کبھی بھی خود کو مکمل طور سے سرمايہ دارانہ نظام کے حوالے نہيں کیا۔ اس کے لئے سرمايہ دارانہ نظام بہت سی حقيقتوں ميں سے صرف ايک ہے۔ چين کے مقابلے ميں بھارت نے کبھی بھی اپنی پوری قوت، آگے کی طرف چھلانگ لگانے ميں صرف نہيں کی۔ بھارت کا بڑا مسئلہ اقتصادی بحران نہيں بلکہ سماجی اور سياسی ہے۔ ان ستر فيصد شہريوں کا کيا بنے گا جواب بھی ديہات ميں رہتے ہيں۔ اوراورممبئی جيسے شہروں کے گندے خستہ حال علاقوں ميں رہنے والوں کا کيا ہوگا۔