1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی ایشیا اور جرمن پریس

8 اگست 2010

جنوبی ايشيا کے حالات و واقعات پر جرمن زبان کے احبارات و جرائد کے تبصرے اور جائزے

https://p.dw.com/p/OeiN
تصویر: AP

جرمن اخبار ’زُوڈ ڈوئچے‘ کے مطابق پاکستانی ریاست کے لئے سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریاں ایک بڑی آزمائش ثابت ہو سکتی ہیں۔ ابتدائی رپورٹوں کے مطابق عسکریت پسند تنظیموں کے ساتھ روابط کی شہرت رکھنے والی رفاہی تنظیمیں سیلاب زدہ علاقوں میں پہنچ چکی ہیں اور لوگوں کو انسانی امداد فراہم کر رہی ہیں۔ ”فلاِح انسانیت“ نامی تنظیم نے سیلاب زدہ علاقے میں ہنگامی امداد کے تیرہ اور طبی امداد کے چھ کیمپ قائم کر رکھے ہیں۔ اگرچہ مبصرین اِس بارے میں شک و شبہ ظاہر کر رہے ہیں کہ عسکریت پسند اِس آفت سے واقعی کوئی بڑا فائدہ اٹھا سکیں گے تاہم طاقت کے اِس خلا کا یہ نتیجہ ضرور نکل سکتا ہے کہ عسکریت پسندوں کو اچھا سمجھا جانے لگے اور لوگ اُن میں شامل ہونا شروع ہو جائیں۔ اِسی طرح کے حالات پانچ سال پہلے بھی نظر آئے تھے۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں سن 2005 کے زلزلے کے بعد عسکریت پسند گروپ رفاہی تنظیموں کے طور پر سرگرم ہو گئے تھے اور اُنہوں نے فوری امداد فراہم کی تھی۔ تب غالباًاِن میں سے چند گروپوں کی مقبولیت میں زبردست اضافہ ہو گیا تھا۔ اقوام متحدہ کے تازہ ترین اندازوں کے مطابق 4.5 ملین انسان اِس قدرتی آفت سے متاثر ہوئے ہیں۔ جہاں چند ایک امدادی تنظیموں کے خیال میں اِس سیلاب میں مرنے والوں کی تعداد، جو ابھی سولہ سو ہے، بڑھ کر تین ہزار تک بھی پہنچ سکتی ہے، وہاں ایک اور خدشہ بھی سر ابھار رہا ہے اور وہ یہ کہ پاکستانی فوج اور طالبان باغیوں کے درمیان جس علاقے میں لڑائی جاری ہے، وہ انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں کھیل سکتا ہے۔

Deutschland Presseschau Horst Köhler zurückgetreten
جرمن جرائدتصویر: AP

اِس سے آگے چل کر ”زوڈ ڈوئچے‘‘ لکھتا ہے: ’’سابق پاکستانی جنرل طلعت مسعود کہتے ہیں،’ افسوس کہ حکومت کافی بے بس نظر آ رہی ہے‘۔ اگرچہ امدادی کارروائیوں کے لئے تیس ہزار فوجی روانہ کئے گئے ہیں تاہم سیلاب زدہ علاقوں میں بہت سے لوگ اس بات پر احتجاج کر رہے ہیں کہ ابھی اُن تک کوئی مدد نہیں پہنچی ہے۔ دریں اثناء بہت سے پاکستانی یہ بھی پوچھ رہے ہیں کہ اُن کے صدر کی جانب سے سیلاب زدگان کے لئے حمایت آخر کہاں رہ گئی؟ طلعت مسعود کے مطابق، ’مجھے سخت تشویش ہے کہ اب اِس خلا کو پورا کرنے کے لئے عسکریت پسند تنظیمیں آگے آ سکتی ہیں۔‘ اور یہی کچھ ہوا بھی ہے۔ اسلامی تنظیم ’فلاحِ انسانیت‘ نے اعلان کیا ہے کہ اُس نے سیلاب زدہ علاقے میں ہنگامی اور طبی امداد کے مراکز قائم کر دئے ہیں۔حکومتی نمائندے اِس تنظیم کی سرگرمیوں پر کافی بے چین نظر آرہے ہیں۔‘‘

اپنے دَورہء برطانیہ کے لئے پاکستانی صدر آصف علی زرداری نے پورے چھ روز وقف کئے ہیں۔ لیکن ابھی زرداری نے برطانوی سرزمین پر قدم بھی نہیں رکھے تھے کہ اِس دورے پر سخت تنازعہ اُٹھ کھڑا ہوا کیونکہ ملک کئی عشروں کے شدید ترین سیلاب کی زَد میں آ گیا ہے۔ اخبار ’فرانکفرٹر رُنڈ شاؤ‘ مزید لکھتا ہے: ’’دو پاکستانی نژاد برطانوی سیاستدانوں کو شکوہ تھا کہ دورے کے لئے یہ وقت انتہائی نامناسب تھا اور اِسی لئے اُنہوں نے گزشتہ جمعرات کو زرداری کے ساتھ اپنی ایک ملاقات منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا۔ اپوزیشن لیبر پارٹی کے ایک رکنِ پارلیمان خالد محمود نے کہا، تباہی اتنی بڑی ہے کہ صدر کو، جنہوں نے پیر کو اپنے دورے کا آغاز فرانس سے کیا تھا، اِس موقع پر اپنے ملک میں ہونا چاہئے تھا: ’صدر کو فرانس اور انگلینڈ میں گھومنے پھرنے کے بجائے انسانوں کی مدد کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی۔‘ اسلام آباد میں اپوزیشن جماعتوں نے بھی زرداری پر وطن واپسی کے لئے زور دیا ہے۔‘‘

سوئٹزرلینڈ سے شائع ہونے والے روزنامے ’نوئے زیوریشر سائی ٹُنگ‘ نے کراچی میں ہونے والے اُن تازہ ہنگاموں کو موضوع بنایا، جو گزشتہ پیر کو حکومت کی ایک حلیف جماعت ایم کیو ایم کے صوبائی رکنِ پارلیمان سید رضا حیدر کے قتل کے بعد شروع ہوئے اور جن میں درجنوں لوگوں کو ہدف بنا کر قتل کیا گیا۔ اخبار لکھتا ہے: ’’سندھ اسمبلی کے رکن کے قتل کے فوراً بعد شہر بھر میں مختلف مقامات پر لوگ جمع ہوتے گئے اور اُنہوں نے پختون اقلیت سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو ہدف بنا کر قتل کرنا شروع کر دیا۔ کراچی میں ایم کیو ایم کے حامیوں اور پختون آبادی کی نمائندگی کرنے والی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے ارکان کے درمیان یہ ہلاکت خیز چپقلش گزشتہ کئی برسوں سے چلی آ رہی ہے۔ شہر میں حالات بدستور تناؤ کا شکار ہیں کیونکہ ایم کیو ایم کے سرکردہ قائدین نے اِس رکنِ پارلیمان کے قتل کا بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اِس سال کراچی میں اب تک مہاجر اور پختون آبادی کے درمیان جھڑپوں میں تین سو سے زیادہ افراد مارے جا چکے ہیں۔‘‘

اگرچہ پاکستان کا قیام واضح طور پر ایک مذہبی ریاست کے طور پر عمل میں آیا تھا تاہم بہت سی جگہوں پر عقیدے کی وہ صورت قائم رہی ہے، جو صوفیانہ روایات سے عبارت ہے اور جس نے کسی زمانے میں مسلمانوں، ہندوؤں اور سکھوں کو ایک جگہ اکٹھا کر رکھا تھا۔ اخبار کے مطابق ’مغربی اثرات‘ سے بھی کہیں زیادہ ملک کی یہ صوفی روایت طالبان کے اشتعال کا ہدف بنی ہوئی ہے۔ اخبار لکھتا ہے: ’’طالبان کا غیض و غضب آزادی، سرمایہ دارانہ نظام یا جمہوریت کے خلاف اِتنا نہیں ہے، جتنا کہ اِس گہری جڑیں رکھنے والی مذہبی روایت کے خلاف ہے۔ وہ ایک ایسا خلا پیدا کرنا چاہتے ہیں، جس میں وہ اسلام کی اپنی بعید از حقیقت تفسیر کو عملی شکل دے سکیں لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ اِس سے پہلے اُنہیں ایک پوری دُنیا کو تباہ کرنا ہو گا۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ اپنے قیام کے ساٹھ سال سے زیادہ عرصے کے دوران ہونے والے تجربات کے بعد بھی یہ ملک یہ اہم ترین سبق سیکھنے سے بہت دور نظر آتا ہے کہ پاکستانی قوم کی بنیاد زبان، لباس، ایک ہی جگہ اکٹھا رکھنے والی مشترکہ اَقدار، مشترکہ رسم و رواج، مشترکہ ادبی روایت، صوفیاؤں کے مزار اور اُن میں چھپی داستانیں ہیں، نہ کہ مذہب۔ مذہب اِس قوم کے مختلف قومیتی گروپوں کو جوڑنے والے عُنصر کے طور پر کمزور اور بے سُود ثابت ہوا ہے۔ آج ساٹھ سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد یہ مذہب ہی ہے، جس نے کروڑوں انسانوں کو ثقافتی طور پر پسماندہ اور کسی بھی نفرت بھرے جھوٹ کا آسانی سے شکار ہو جانے والے بنا دیا ہے۔ یہ انسانی ٹائم بموں پر مشتمل ایک قوم ہے۔‘‘

Zeitungstitel
جرمن اخبارات و رسائلتصویر: AP

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کی سڑکوں پر ٹریفک کی صورت حال انتہائی ابتر ہے، روز جگہ جگہ ٹریفک جام نظر آتے ہیں، ڈرائیور ایک دوسرے پر اپنا غصہ اُتارتے دکھائی دیتے ہیں جبکہ گاڑیوں کے ہارن ایک کورس کی شکل میں بجتے سنائی دیتے ہیں۔ پولیس نے، جس کے قابو سے یہ صورتِ حال باہر ہوتی دکھائی دیتی ہے، دو مہینے پہلے فیس بُک کے ذریعے شہریوں پر زور دیا کہ وہ ٹریفک کی صورتِ حال بہتر بنانے کے لئے تجاویز دیں۔ فیس بُک کے اِس پیج کے رجسٹرڈ ’دوستوں‘ کی تعداد سترہ ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ جرمن اخبار ’دی ویلٹ‘ رقم طراز ہے: ’’ڈیجیٹل طریقے سے ملنے والی معلومات کی مدد سے پولیس نے 665 چالان کئے۔ اب اگر کوئی شخص ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی کرنا چاہتا ہے تو اُسے اب مزید پولیس اہلکاروں کی تلاش میں اِدھر اُدھر دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہینڈی کیمرے سے لیس کوئی بھی شہری اُس کے جرم کی تفصیلات ریکارڈ کر کے پولیس کے حوالے کر سکتا ہے۔ اب تک فیس بُک کے یُوزرز نے ایسے درجنوں ویڈیوز اور تقریباً تین ہزار تصاویر نئی دہلی پولیس کے اِس پیج پر جاری کی ہیں۔ آیا اِس سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ کے ذریعے پولیس واقعی دارالحکومت کی ٹریفک کو کنٹرول کر سکے گی، یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی۔ ہو سکتا ہے کہ بھارتی خوش قسمت ثابت ہوں اور فیس بُک واقعی مستقبل میں حادثات میں کمی کے سلسلے میں معاون ثابت ہو سکتی ہو۔‘‘

گزشتہ ہفتے جرمن ٹیلی وژن نے ایک دستاویزی فلم نشر کی، جس میں جرمنی بھر میں اپنی شاخیں رکھنے والے اور انتہائی سستے ملبوسات فروخت کرنے والے سٹور 'KiK' کی اصل کہانی کو بے نقاب کیا گیا تھا۔ یہ ادارہ بنگلہ دیش میں انسانی وقار کے منافی حالات میں ملبوسات تیار کرواتا ہے اور پھر اُنہیں جرمنی میں انتہائی ارزاں نرخوں پر فروخت کرتا ہے۔ اخبار ’ٹاگیز شپیگل‘ لکھتا ہے: ’’اِس دستاویزی فلم کا عنوان تھا: ’کِک سٹوری، سستے ملبوسات والے سٹور کے اوچھے ہتھکنڈے۔‘ اِس میں جرمنی میں 1994ء میں قائم ہونے والے ایک ایسے سٹور کی اندر کی کہانی بیان کی گئی ہے، جو ہوش رُبا رفتار کے ساتھ ترقی کرتا جا رہا ہے۔ روز ہی کہیں نہ کہیں اِس سٹور کی کسی نئی شاخ کا افتتاح ہوتا ہے۔ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ اتنی کم قیمت میں ملبوسات تیار کیسے ہوتے ہیں اور تیار کرنے والوں کو مہنگے کتنے پڑتے ہیں۔ فلم میں بنگلہ دیش کی چار خواتین کو متعارف کروایا گیا ہے، جو اپنی تین سو ساتھی خواتین کے ساتھ اکثر اوقات صبح آٹھ بجے سے لے کر رات کے تین تین بجے تک ایک ایسے ہال میں ملبوسات کی سلائی کا کام کرتی ہیں، جس کے چاروں طرف جنگلہ لگا ہوا ہے۔ اُن پر کام کے اوقات میں ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کرنے پر بھی پابندی ہوتی ہے۔ بدلے میں اُنہیں ملنے والی اُجرت تیس یورو کے برابر بھی نہیں بنتی۔ اِس رپورتاژ کی اشاعت سے پہلے ہی ’کِک‘ سٹور نے اپنی غلطیوں کا اعتراف کر لیا۔ ادارے کی انتظامیہ نے کہا کہ ’اُس مرحلے میں، جب ادارہ تیزی سے ترقی کر رہا تھا، یقیناً کچھ غلطیاں بھی ہوئیں، جن پر ادارے کو بہت زیادہ افسوس ہے۔‘

ترجمہ و تحریر: امجد علی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں