1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی ایشیا کے حالات و واقعات جرمن اخبارات میں

14 نومبر 2010

جرمن اخبارات میں گزشتہ ہفتے امریکی صدر اوباما کے دورہ ء بھارت کو خاصی اہمیت دی گئی۔ اس کے علاوہ پاکستان میں حالیہ سیلاب کے اثرات کو بھی موضوع بنایا گیا۔

https://p.dw.com/p/Q87j
تصویر: AP

امريکی صدر باراک اوباما کے بھارت کے سرکاری دورے میں جرمن پريس نے خاصی دلچسپی ظاہر کی ہے۔ اخبار Frankfurter Allgemeine Zeitung لکھتا ہے کہ اوباما اپنے ساتھ 250 تجارتی صنعتی اداروں کے مالکان کو لائے تھے۔ اُن کا دورہ تين دنوں کا تھا اور اس طرح اُنہوں نے اپنے اب تک کے دور صدارت ميں کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے ميں بھارت کو سب سے زيادہ اہميت دی ہے۔ افغانستان اور پاکستان کے علاقے سے متعلق امريکی پاليسی، بہت سے امريکی تجارتی اور کاروباری اداروں کی طرف سے روزگارکے مواقع کی بھارت منتقلی اور دونوں ملکوں کے درميان جوہری معاہدے پر عملدرآمد کے سلسلے ميں تمام تر اختلافات کے باوجود امريکہ اور بھارت آج ايک دوسرے کے اتنے قريب ہيں،جتنے وہ کبھی نہيں تھے۔ امريکہ کسی دوسرے ملک کے ساتھ اتنی فوجی مشقيں نہيں کرتا جتنی کہ بھارت کے ساتھ کرتا ہے۔امريکی يونيورسٹيوں کے غير ملکی طلبا ميں بھارتی طلبا کی تعداد سب سے زيادہ ہے۔اس کے علاوہ چار سال قبل امريکی صدر کے دورے کے برخلاف اس مرتبہ کوئی احتجاج بھی نہيں کيا گيا۔ حتی کے کميونسٹ بھی پرسکون ہی رہے۔

جرمنی کا سوشلسٹ رجحان رکھنے والا اخبار Neues Deutschland لکھتا ہے: ’’امریکی انتظامیہ صدر کے دورہء ايشيا کو دنيا ميں امريکہ کے اثر، طاقت اور اختيار کو مضبوط کرنے کے لئے استعمال کرنا چاہتی ہے۔ امريکہ کے قومی سلامتی کے مشير ٹام ڈونيلون نے کہا کہ ايشيا کو خاص طور پر توجہ کا مرکز بنايا جا رہا ہے تاکہ اس کی اقتصادی اور تجارتی طاقت سے فائدہ اٹھايا جا سکے۔تاہم يہ تاثرپيدا ہوتا ہے کہ اوباما کے دنيا ميں چين کے بڑھتے ہوئے اثر کو روکنے کے لئے دوسرے ايشيائی ممالک کے ساتھ امريکہ کے تعلقات کو بہتر بنايا جائے۔ اخبار Tageszeitung تحرير کرتا ہے کہ امريکی صدر نے پاکستان اور افغانستان ميں امريکہ پر ناکامی کا الزام لگانے والے بھارتی طلبا کے ساتھ تحمل سے بحث کی۔ اُنہوں نے اپنی لئے مثالی شخصيت مہاتما گاندھی کی يادگار جگہوں کا دورہ کيا۔ يہ اُن کا طويل ترين غير ملکی دورہ تھا اور اُنہوں نے خود بھی کہا کہ وہ اس طرح ايک علامت قائم کرنا چاہتے ہيں۔ اوباما نے ہرجگہ اپنی تقارير ميں نئے بھارت کی بڑائی اور قوت کی تعريف کی۔

اخبار Frankfurter Zeitung ايک اور مقام پر لکھتا ہے کہ اوباما نے بھارت اور پاکستان کے دشوار تعلقات کے سلسلے ميں ثالثی کی ايک بار پھر پيشکش کی۔ تاہم انہوں نے کہا کہ پاکستان اُن کے سفری پروگرام پر ناراض ہے کيونکہ اُس ميں پاکستان شامل نہيں ہے۔ حقيقت يہ ہے کہ اوباما کو، جن کے سياسی مستقبل کا انحصار افغانستان پر ہے، محتاط رہنا چاہئے کہ وہ کيا کہتے ہيں۔ پاکستان پر زبانی حملے اسے افغانستان کے سياسی حل ميں مدد دينے پر مشکل ہی سے آمادہ کرسکيں گے۔ اس لئے اوباما نے اس سلسلے ميں صرف اشاروں کنايوں سے کام ليا۔ اُنہوں نے رات تاج نامی اُس ہوٹل ميں گذاری جو دوسال قبل پاکستانی دہشت گردوں کا نشانہ بنا تھا۔اوباما نے آمد کے فوراً بعد دہشت گردانہ حملے ميں مارے جانے والے 160 سے زائد افراد کے لواحقين سے ملاقات کی۔

پاکستان ميں شديد سيلاب کے 100 دن گذر جانے کے بعد بھی حالات خراب ہيں۔ ميڈيکو انٹرنيشنل کی ساتھی پاکستانی تنظيم HANDS کے سربراہ ڈاکٹر تنوير احمد نے ان چيلنجوں کا ذکر کيا جن کا پاکستان کو سامنا ہے۔ اخبار Neues Deutschland لکھتا ہے: ’’تمام تر امداد کے باوجود صورتحال بہت خراب ہے۔ سيلاب سے متاثر ہونے والے لاکھوں افراد اپنے تباہ شدہ دیہاتوں کے قريب ايسے کيمپوں ميں رہ رہے ہيں، جہاں اُنہيں ضرورت کی بہت کم ہی اشياء دی جارہی ہيں۔ اب سردی کا موسم آرہا ہے اور بارشيں شروع ہوگئی ہيں۔ اس سے صورتحال اور خراب ہوگئی ہے۔ اب تک جو کچھ بھی مدد دی جا چکی ہے، وہ قطعی ناکافی ہے۔‘‘

رپورٹ : آنا لیہمن/ شہاب احمد صدیقی

ادارت : امجد علی