جنوبی بھارت میں خشک سالی سے جھلستی عورتیں
7 اگست 2017گزشتہ برس جنوبی بھارتی ریاست تامل ناڈو کے ایک گاؤں کے ایک مندر سے ایک زمین کا ٹکڑا لینے والا کسان ویرامانی اس زمین پر چاول اگانا چاہتا تھا۔ اس نے اس فصل کی بوائی کے لیے چالیس ہزار روپے کا قرض بھی لیا۔ مگر بارش نہ ہوئی۔ 31 سالہ ویرامانی کے لیے قرض اور اخراجات کا ذہنی دباؤ اس قدر زیادہ تھا کہ اسے دل کا دورہ پڑا اور وہ انتقال کر گیا۔ اس کے لواحقین اس کی بیوی کویتا اور دو بیٹیاں تھیں، جنہیں معلوم ہی نہیں تھا، کہ ویرامانی کا لیا ہوا، قرض اب ان کے سر پڑ چکا ہے۔
کویتا اپنے شوہر کے ساتھ کھیتوں میں کام کر رہی تھی تاکہ لیز پر لی ہوئی زمین پر اچھی فصل اگا کر فائدہ اٹھایا جا سکے، مگر تامل ناڈو ریاست گزشتہ ایک صدی کی بدترین خشک سالی کا شکار ہے۔ کویتا کو اس سال کے آخر تک لی گئی زمین سے پیسے کمانا ہیں، مگر لگتا نہیں کہ وہ کامیاب ہو گی۔
کاڈام بانکُنڈی کے اس گاؤں میں کویتا کی زمین اپنی ہے اور نہ ہی وہ کھیتی باڑی کے علاوہ کچھ اور جانتی ہے۔
اپنی انتہائی چھوٹے سے گھر میں موجود کویتا کا کہنا ہے، ’’میں صرف کھیتی باڑی جانتی ہوں۔ میں اس زمین کی مالک نہیں ہوں۔ اس لیے مجھے بینک سے قرض بھی نہیں مل سکتا اور نہ ہی کوئی حکومتی مراعات۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’جب زمین کی لیز ختم ہو جائے گی، مجھے نہیں لگتا کہ یہ زمین بھی مجھے دوبارہ ملے گی۔ مجھے اپنے خاندان کی خوراک کے لیے کوئی اور راستہ ڈھونڈنا پڑے گا۔‘‘
یہ پریشانی صرف کویتا ہی کی نہیں بلکہ بھارت کے دیہی علاقوں میں قریب تین چوتھائی خواتین کی زندگیوں کو انحصار زمین پر ہے، جب کہ مردوں میں یہ تناسب ساٹھ فیصد ہے۔ زمینوں سے گھٹتی کمائی اب مردوں کو شہروں میں نوکریاں ڈھونڈنے پر مجبور کرتی جا رہی ہے۔
بھارت میں صرف تیرہ فیصد دیہی خواتین ایسی ہیں، جن کے نام پر زمین ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک بڑی تعداد کو نہ بینک سے قرض مل سکتا ہے، نہ ان کے کھیتوں کی انشورنس ہو سکتی ہے اور نہ ہی کسی قسم کی دیگر حکومتی مراعات انہیں حاصل ہو سکتی ہیں۔