1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی وزیرستان آپریشن، ڈوئچے ویلے کا تبصرہ

22 اکتوبر 2009

جنوبی وزیرستان میں طالبان کے خلاف پاکستانی سیکیورٹی فورسز کا آپریشن جاری ہے۔ فوجی ذرائع کے مطابق موسمِ سرما کی آمد سے پہلے پہلے یہ کارروائی تکمیل کو پہنچ جائے گی۔ اِس موضوع پرنئی دہلی سےکائی کسٹنر کا تبصرہ :

https://p.dw.com/p/KCWd
پاکستانی فوج کی جانب سے جنوبی وزیرستان میں بڑا آپریشن شروع کیا گیا ہےتصویر: AP

اِس دُنیا کی اَفواج اِس بات کے لئے مشہور ہیں کہ وہ اپنے آپریشنز کے لئے بار بار غیر معمولی نام سوچتی ہیں، جو ضروری نہیں ہے کہ حالات سے مطابقت بھی رکھتے ہوں۔ پاکستانی فوج نے اِس آپریشن کے لئے ’’آپریشن راہِ نجات‘‘ کا نام چُنا ہے۔ یہ نام اِس آپریشن کے لئے کتنا موزوں ہے، اِس کا پتہ تو آنے والے ہفتوں بلکہ مہینوں ہی میں چل سکے گا۔ ایک بات لیکن ابھی سے واضح ہے کہ انتہا پسندی سے نجات کی اِس ملک کو اِس وقت اشد ضرورت ہے۔ اور جیسا کہ نظر آ رہا ہے، ملکی اَفواج نجات دہندہ کا کردار ادا کرنے کی کوشش بہرحال کر رہی ہیں۔

Pakistan Armee Offensive gegen die Taliban
اس آپریشن میں بھاری توپ خانے کی مدد بھی لی جارہی ہےتصویر: AP

پاکستان کو گذرے ہفتوں کے دوران ایک بار پھر طالبان کی دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑا۔ طالبان نے، جہاں چاہا، جب چاہا اور جتنی مرتبہ چاہا، حملے کئے۔ اگر ابھی بھی جنوبی وزیرستان پر حملے کے لئے کسی جواز کی ضرورت باقی تھی تو طالبان نے وہ بھی فراہم کر دیا۔

دیکھا جائے تو اِس حملے کے لئے اِس سے زیادہ کوئی اور موزوں وقت بھی نہیں تھا۔ گزشتہ مہینوں کی دہشت گردی کی لہر نے عوام کا ناک میں دَم کر دیا تھا۔ چند ماہ پہلے جب سیکیورٹی فورسز نے وادیٴ سوات سے طالبان کو نکال باہر کرنے کی کارروائی شروع کی تو ذہنی طور پر عوام اِس کارروائی کے حق میں تھے۔ ایسی کوئی وجہ نہیں کہ عوام کا مزاج اب بدل گیا ہو۔ چند ایک کٹر مذہبی عناصر کو چھوڑ کر تمام سیاسی جماعتیں اِس کارروائی کے حق میں ہیں اور ایسا اتفاق اور اتحاد نظر آ رہا ہے، جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ وُزراء، فوج اور عوام، سب دہشت گردی کے سامنے ڈَٹ گئے ہیں۔ اور یہ سب کچھ ایک ایسے ملک میں ہو رہا ہے، جس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہاں ریاست کے پاس ایک فوج نہیں ہے بلکہ فوج کے پاس ایک ریاست ہے۔

Flash-Galerie Pakistan: Soldaten in Lahore, Pakistan
آپریشن میں تقریبا28000 فوجی حصہ لے رہے ہیںتصویر: AP

اب ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ یہ کارروائی کامیابی سے ہم کنار ہو کیونکہ اِسی کامیابی پر بہت کچھ منحصر ہے، پاکستان کے لئے بھی اور مغربی دُنیا کے لئے بھی۔

جنوبی وزیرستان کا علاقہ ایک طویل عرصے سے طالبان، القاعدہ کے جنگجوؤں اور مغربی دُنیا کے اُن دہشت گرد سیاحوں کے لئے گویا ’’قدرتی تحفظ کا علاقہ‘‘ تصور کیا جاتا ہے، جو وہاں تربیت لینے جاتے ہیں۔ اِس صورتحال کا بدل جانا یقیناً ایک اچھی پیشرفت ہو گی تاہم یہ انتہا پسند رضاکارانہ طور پر اور آسانی سے اپنا پسندیدہ علاقہ ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے۔ ماہرین ابھی سے کہہ رہے ہیں کہ اِس کارروائی میں بہت زیادہ خونریزی ہونے والی ہے۔

لیکن افسوس کہ پاکستان کے پاس اِس وقت اور کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ اَسی کے عشرے میں مغربی دُنیا کی زبردست امداد اور تعاون سے اُس نے اپنے ہاں انتہا پسندی کا ایک خوفناک عفریت پالا۔ نوے کی دہائی میں پاکستان نے طالبان کا کھلے عام ساتھ دیا ، مغربی دُنیا کی خاموش حمایت کے ساتھ۔ 2001ء کے بعد یہ عفریت قبائلی علاقوں میں پھیلنا شروع ہوا تو تب بھی پاکستانی فوج کا خیال تھا کہ معاملات اُس کے قابو میں ہیں۔ اب لیکن یہ عفریت حد سے بڑا ہو چکا ہے۔ اب جا کر فوج نے واضح طور پر یہ جانا ہے کہ طالبان پورے پاکستان اور خود اُس کے وجود کے لئے بھی خطرہ بن چکے ہیں۔ اب مغربی دُنیا کے لئے بھی یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ پاکستانی فوج اپنے اس آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچائے۔

تبصرہ : کائی کسٹنر، نئی دہلی / امجد علی

ادارت : گوہر نذیر