1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی وزیرستان میں طالبان کے خلاف آپریشن

18 اکتوبر 2009

پاکستانی فوج کے تعلقات عامہ کے مطابق ایک روز قبل جنوبی وزیرستان میں شروع کئے گئے آپریشن راہ نجات میں اب تک 60 شدت پسندوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے جبکہ جھڑپوں کے دوران 5 فوجی اہلکار بھی ہلاک ہو گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/K9Vj
تصویر: AP

اتوار کے روز آئی ایس پی آر کی طرف سے جاری کئے گئے بیان میں 11 فوجیوں کے زخمی ہونے کی تصدیق بھی کی گئی۔ بیان کے مطابق سیکورٹی فورسز نے ماندانہ ، قند اور تراکئی کے علاقوں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے جبکہ ہفتے کے روز شدت پسندوں سے خالی کرائے گئے سپین کئی رکزئی کے علاقوں میں بھی فوج نے چوکیاں قائم کر کے اپنی پوزیشن مستحکم کر لی ہے۔ ادھر بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق جنوبی وزیرستان میں جاری فوجی کارروائی کی بروقت اور کامیاب تکمیل کا انحصار اس بات پر بھی ہو گا کہ پاک افغان سرحد پر تعینات امریکی فوج وزیرستان سے پسپا ہونے والے جنگجوئوں کو افغانستان میں داخل ہونے سے روکے۔ اس حوالے سے دفاعی تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) شوکت قادر نے کہا: "ماضی میں ہمیں شکایات رہی ہیں کہ ہم نے جب بھی شدت پسندوں کے خلاف آپریشن کیا امریکہ نے ہماری مدد نہیں کی۔ اگر امریکی افواج پاک افغان سرحد پر ناکہ بندی کر لے اور عسکریت پسندوں کو افغانستان داخل ہونے سے روکیںلیں تو جس قدر وہ ناکہ بندی کرنے میں کامیاب ہونگے اسی قدر دہشتگردوں کے خلاف جاری آپریشن کامیابی سے ہمکنار ہو گا۔‘‘

جنوبی وزیرستان میں طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف زمینی آپریشن حالیہ دنوں میں پے در پے خودکش حملوں کے بعد شروع کیا گیا ہے۔

دوسری طرف جنوبی وزیرستان کے جنگ زدہ علاقوں سے لوگوں کی نقل مکانی کا سلسلہ اتوار کے روز بھی جاری رہا۔ ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک پہنچنے والے متاثرین کے مطابق کرفیو اور ذرائع آمد و رفت کی عدم دستیابی کے سبب کئی خاندان اب بھی جنوبی وزیرستان میں پھنسے ہوئے ہیں۔ وزیرستان سے ڈی آئی خان پہنچنے والے ایک شخص نے راستے کی مشکلات اور اپنے علاقے کی صورتحال کچھ یوں بتائی: "راستے میں ہمیں پولیس کی وجہ سے بہت پریشانی ہو رہی ہے، جگہ جگہ پولیس کی چیک پوسٹیں ہیں جہاں پر وہ چائے پانی اور خرچہ مانگتے ہیں، ہمارے علاقے میں آپریشن ہو رہا ہے، بمباری جاری ہے، فوج اور طالبان میں زبردست لڑائی ہو رہی ہے۔‘‘

Pakistan Lahore Anschlag
جنوبی وزیرستان میں طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف زمینی آپریشن حالیہ دنوں میں پے در پے خودکش حملوں کے بعد شروع کیا گیا ہے۔تصویر: AP

ادھر جنوبی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والوں کے لئے ریلیف کیمپ بھی قائم کردیئے گئے ہیں ۔ صوبہ سرحد کے ریلیف کمشنر شکیل قادر کا کہنا ہے کہ اب تک وزیرستان سے آنے والے 94 ہزار افراد کو رجسٹر کیا جا چکا ہے اور ان کی مالی امداد کے لئے حکومت نے دستاویزات کا اجراء شروع کر دیا ہے: " ان تمام متاثرین کو ہر مہینے فی خاندان 5 ہزار روپے دیئے جائیں گے اور ہمارا یہ منصوبہ ہے کہ جتنے لوگ بھی یہاں پر آتے ہیں ان کو ہم یہ پیسے مہیا کریں گے اور یہ سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ کل تک ہمارے اعداد و شمار کے مطابق800 خاندانوں کو سمارٹ کارڈ جاری کئے جا چکے ہیں۔‘‘

دوسری جانب وزیرستان آپریشن کے پیش نظر ملک بھر میں سیکورٹی کے انتظامات مزید سخت کر دیئے گئے ہیں اور پولیس نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت تمام بڑے شہروں میں کالعدم شدت پسند تنظیموں کے کارکنوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔

رپورٹ : شکور رحیم، اسلام آباد

ادارت : افسر اعوان