1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی کوریائی تاریخ کا سیاہ ترین باب، نئے شرمناک انکشافات

امتیاز احمد21 اپریل 2016

چودہ سالہ لڑکے چوئی سونگ نے روٹی کا صرف ایک ٹکڑا چوری کیا تھا لیکن اس ٹکڑے نے اس کی ساری زندگی ہی تبدیل کر دی۔ جانیے اس ملک کے غریبوں کے ساتھ کس قدر شرمناک سلوک کیا گیا۔

https://p.dw.com/p/1IaJL
Südkorea Seoul Stadtansicht
تصویر: Imago/M. Aurich

جس دن چوئی سونگ نے روٹی کا صرف ایک ٹکڑا چوری کیا تھا، اسی دن اسے ایک پولیس اہلکار نے پکڑا، اس سے اقرار جرم کروایا، اس کی اسکول یونیفارم بھی پھاڑ دی اور لائٹر کی آگ سے اس کے اعضائے مخصوصہ کو بھی جلانے کی کوشش کی گئی۔ سن انیس سو بیاسی کے ایک دن جو کچھ اس لڑکے کے ساتھ ہوا بعدازاں ایسا ہی سلوک بے گھر بچوں اور خانہ بدوشوں کے ساتھ کیا گیا۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) مسلسل ایک ماہ کی تحقیقات کے بعد ایسے حقائق سامنے آئے ہیں کہ جنگ کے بعد جنوبی کوریا کے تاریخ میں انسانی حقوق کی سنگین ترین خلاف ورزیاں کیسے کی گئیں۔ تحقیقات کے مطابق انسانی حقوق کی یہ خلاف ورزیاں سن انیس سو اٹھاسی میں اولمپکس گیمز سے پہلے کی گئیں۔ سیئول حکومت ہر حال میں دنیا کے سامنے اپنے ملک کا بہتر امیج پیش کرنا چاہتی تھی اور اس کے پاس ایسا کرنے کے لیے یہ پہلا موقع تھا۔

Olympischen Sommerspiele Seoul 1988 Marokko Said Aouita
تحقیقات کے مطابق انسانی حقوق کی یہ خلاف ورزیاں سن انیس سو اٹھاسی میں اولمپکس گیمز سے پہلے کی گئیںتصویر: picture-alliance/dpa

اس وقت کے آمر چُن ڈو ہان نے شہر کی تطہیر کا فیصلہ کیا، جس کے تحت نجی گاڑیوں کو صرف ہر دوسرے دن شہر کی سڑکوں پر آنے کی اجازت دی گئی، شہر میں کتوں کا گوشت فراہم کرنے والے ریستورانوں کو عارضی طور پر بند کر دیا گیا اور سات لاکھ بیس ہزار سے زائد رہائشیوں کو جبراﹰ بیرکوں میں منتقل کر دیا گیا۔

اس امر سے بھی انتہائی کم لوگ آگاہ ہیں کہ اس وقت ہزاروں خانہ بدوشوں کو منظم طریقے سے گرفتار کیا گیا اور اس طرح ان کے سڑکوں پر آنے کی غیر اعلانیہ پابندی لگا دی گئی۔

شہر کی اس ’’صفائی کے عمل‘‘ سے نہ صرف بے گھر اور ذہنی طور پر معذور افراد متاثر ہوئے بلکہ لاوارث بچوں کو بھی نہ چھوڑا گیا۔ تقریباﹰ چار ہزار بچوں کو ’’برادران کا گھر‘‘ نامی عمارات میں منتقل کر دیا گیا۔ ایسی عمارتیں بوسان کے علاقے میں بنائی گئی تھیں، جو صرف غیر پسندیدہ افراد کے لیے مخصوص تھیں۔

اس بارے میں ایک سابق وکیل کا کہنا تھا، ’’یہ کوئی رہائشیں نہیں تھیں بلکہ حراستی کیمپ تھے۔‘‘ اس دروان ان کیمپوں میں کئی لوگ ہلاک ہوئے اور درجنوں سے جنسی زیادتیاں کی گئیں لیکن آج تک کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ان کیمپوں میں 1975ء سے 1986ء تک پانچ سو تیرہ افراد ہلاک ہو ئے جبکہ امکانات ہیں کہ حقیقی اعداد و شمار ان سے کہیں زیادہ ہیں۔ سبھی کی وجہ موت صرف ’’دل کا دورہ یا کمزوری‘‘ لکھی گئی ہے۔ دوسری جانب ایک عینی شاہد کا کہنا ہے کہ وہاں ایک ایسا کمرہ بھی تھا جہاں لوگوں کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا تھا۔