1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی کوریائی یرغمالی رہا

29 اگست 2007

طالبان نے کوئی چھ ہفتے قبل 23 جنوبی کوریائی مسیحی رضاکاروں کو اغوا کر لیا تھا، جن میں سے دو کو قتل کر دیا گیا، جبکہ دو بیمار خواتین کو رہا کر دیا گیا تھا۔ باقی ماندہ 19 یرغمالیوں میں سے بارہ کو بدھ کے روز رہا کر دیا گیا، جن میں سے دَس خواتین ہیں۔ اِن یرغمالیوں کو غزنی صوبے کے تین مختلف مقامات سے رہاکیا گیا۔ یہ رہائی منگل کے روز طالبان اور جنوبی کوریائی سفارتکاروں کے درمیان براہِ راست بات چیت میں ہونےوالے اتفاقِ رائے

https://p.dw.com/p/DYGa
ریڈ کراس کے نمائندے رہا ہونے والے ایک کوریائی یرغمالی باشندے کے ساتھ
ریڈ کراس کے نمائندے رہا ہونے والے ایک کوریائی یرغمالی باشندے کے ساتھتصویر: AP

کے نتیجے میں عمل میں آئی ہے جبکہ طالبان کے مطابق کل جمعرات تک اِن تمام یرغمالیوں کی رہائی کاعمل مکمل ہو جائے گا۔

سیول حکومت کی طرف سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے والے قبائلی رہنما حاجی ظاہر خاروٹی نے جرمن خبر رساں ادارے dpa کو بتایا کہ تین خواتین اور ایک مرد پر مشتمل آخری گروپ کو سہ پہر قارہ باغ ضلعے میں اُسی جگہ رہا کیا گیا، جہاں طالبان نے اِنہیں اغوا کیا تھا۔

اِن رضاکاروں کے دَورہء افغانستان کے مالی اخراجات برداشت کرنے والے کلیسا کے ترجمان Cha Sung Min نے کہا کہ اُنہیں اِن رضاکاروں کی رہائی کا سن کر پر بے پناہ مسرت ہوئی ہے، مکمل اطمینان لیکن تب ہو گا، جب سب خیریت کے ساتھ واپس وطن پہنچ جائیں گے۔

اُدھر جنوبی کوریائی حکومت کے مطابق وہ اِس بات پر رضامند ہو گئی ہے کہ وہ اغوا کے اِس واقعے سے پہلے ہی طے شُدہ پروگرام کے مطابق اِس سال کے آخر میں افغانستان سے اپنے تمام 200 فوجی واپس بلا لے گی۔ سیول حکومت نے یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ وہ کوئی مزید مسیحی رضاکار افغانستان نہیں بھیجے گی۔

آیا جنوبی کوریائی یرغمالیوں کی رہائی کے بعد جرمن حکومت افغانستان میں اغوا شُدہ جرمن انجینئر روڈولف بی کے حوالے سے اپنی حکمتِ عملی تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، اِس سوال کے جواب میں جاپان کے دَورے پر گئی ہوئی خاتون جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا کہ اُن کے خیال میں جنوبی کوریائی یرغمالیوں کی صورتِ حال سے جرمن حکومت کی سرگرمیوں کے انداز اور حجم میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہو گی۔ مزید یہ کہ جرمنی کی بحرانی کمیٹی پوری طرح سے سرگرمِ عمل ہے اور جرمن یرغمالی کو رہا کروانے کے لئے تمام ممکنہ کوششیں بروئے کار لا رہی ہے۔

اِسی دوران امریکی سرکردگی میں لڑنے والی اتحادی اَفواج نے کہا ہے کہ جنوبی افغانستان میں 100 سے زیادہ طالبان کو ہلاک کر دیا گیا ہے اور یہ کہ مرنے والوں میں کوئی بھی عام شہری شامل نہیں ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ قندھار صوبے میں یہ لڑائی چھوٹے ہتھیاروں سے لیس طالبان کے ایک گروپ کے ایک حملے کے نتیجے میں شروع ہوئی اور ابھی بھی جاری ہے۔ اتحادی فوج کے ذرائع کےمطابق موسمِ بہار کے آغاز سے اب تک چار ہزار سے زیادہ طالبان باغیوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔

بدھ ہی کے روز جنوب مشرقی پکتیکا صوبے کے برمل ضلع میں ایک خود کُش حملہ آور نے ایک پرہجوم جگہ پر اپنے جسم سے بندھی بارودی پٹی کو دھماکے سے اڑا دیا۔ اِس حملے میں دو افغان فوجیوں سمیت چھ افراد ہلاک اور گیارہ زخمی ہو گئے۔