1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی کوریا کے سابق صدر کم دے جنگ انتقال کرگئے

18 اگست 2009

جنوبی کوريا کے سابق صدر کم دے جُنگ حرکتِ قلب بند ہو جانے سے انتقال کرگئے ہيں۔ اُن کی عمر تریاسی برس تھی۔

https://p.dw.com/p/JDjX
کم دے جنگ کو امن کا نوبل انعام بھی دیا گیاتصویر: picture-alliance/ dpa

انہی کے دور ميں جنوبی اور شمالی کوريا کے مابين قربت کا سلسلہ شروع ہوا اور ایک طويل عرصے تک جاری رہا۔ سن 1997ء ميں کم دے جُنگ کے بطور صدر انتخاب کے ساتھ ہی ايک طويل دور کا خاتمہ اور ايک نئے دور کا آغاز ہوا تھا۔ وہ مصالحت اور مکالمت کی ايک نئی پاليسی کے ذريعے دونوں کوريائی ممالک کے تعلقات کو بہتر بنانا چاہتے تھے۔وہ جنوبی کوريا کے پہلے صدر تھے، جنہوں نے شمالی کوريا کا دورہ کيا۔ کم دے جُنگ کو ان کی خدمات کے اعتراف میں امن کا نوبل انعام بھی دیا گیا۔

نوبل انعام کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا: ’’ميں الفريڈ نوبل کے نظريات کے مطابق آئندہ بھی انسانی حقوق،کوريا اور دنيا بھر ميں امن کے لئے کوشش کرتا رہوں گا، اور ميں کوريائی قوم ميں مصالحت اور تعاون کے لئے اپنی پوری توانائی صرف کرتا رہوں گا۔‘‘ تاہم ان کے دور کے آخر ميں امن کے افق پر سياہ بادل چھا گئے تھے۔

Kim Dae Jung auf ASEM Treffen in Kopenhagen
جنگ نے شمالی کوریا سے مصالحت کی پالیسی اپنائیتصویر: AP

شمالی کوريا کے آمر کم يونگ اِل کی حکومت ميزائلوں اور ايٹمی اسلحے کے تجربات کے ذريعے دنيا کو اشتعال دلا رہی تھی ۔ اس کے ساتھ ہی بالآخر دونوں کوريائی رياستوں کے مابين مذاکرات رک گئے۔ جنوبی کوريا ميں لی ميونگ باک کی صورت ميں ايک بار پھر سخت پاليسی کی حامی شخصیت کی حکومت قائم ہوگئی۔ تاہم کم دے جُنگ دنيا بھر کے دورے کرتے اور امن انعامات وصول کرتے رہے۔ وہ اپنے نظريات پر جمے رہے۔ انہوں نے جنوبی کوريا ميں فوجی آمريت کے دور ميں دس سال سے زيادہ عرصہ جيل يا نظربندی ميں بھی گذارا۔ سن 1973ء ميں جنوبی کوريا کی خفيہ سروس نے انہيں اغوا کر ليا تھا اور صرف امريکہ کی جلد کارروائی کے ذريعے وہ قتل ہونے سے بچ سکے تھے۔

سن 1981ء ميں انہيں موت کی سزا بھی سنا دی گئی تھی ليکن عالمی سطح پر ہونے والے احتجاج سے ان کی جان بچ گئی تھی۔ اس کا اعتراف وہ اپنے غيرملکی دوروں ميں بار بار کرتے تھے، مثلاً ایک دفعہ انہوں نے برلن کا دورہ کرتے ہوئے کہا تھا: ’’جب مجھے موت کی سزا سنائی گئی تو جرمنی ميں بہت سے لوگوں نے ميری حمايت ميں کوششيں کی تھيں، مثلا ًچانسلر ولی برانٹ، صدر فان وائيسيکر، ہيلمٹ شمٹ اور گينشر نے۔ ان کی مدد کے بغير ميں آج زندہ نہ ہوتا۔‘‘

کم دے جُنگ کی شمالی کوريا سے مصالحت کی پاليسی کا موازنہ بار بار جرمنی کی اوسٹ پوليٹیک يا مشرقی جرمنی سميت دوسرے کميونسٹ ممالک کے ساتھ مکالمت کی پاليسی کے ساتھ کيا جاتا تھا۔ وہ خود بھی يہ کہتے تھے کہ جرمنی اور کوريا دونوں ہی نے تقسيم کا بوجھ کندھوں پر اٹھايا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کوريا جرمنی کے دوبارہ اتحاد کی مثال پر قدم بقدم عمل کرے گا۔

ان کی يہ پاليسی ان کے دور صدارت کے خاتمے کے بعد کچھ زيادہ عرصے تک جاری نہيں رہ سکی، جس کا ذمے دار وہ اس وقت کے امريکی صدر جارج بش کو ٹھراتے تھے، جنہوں نے شمالی کوريا کو بدی کے محور ميں شامل قرار ديا تھا۔

کم دے جُنگ کو اس کی قطعی پرواہ نہيں تھی کہ ان کی عمر کے آخری حصے ميں ان کے نظريات پر کسی کو بھی يقين نہيں رہا۔ اُنہيں پورا اعتماد تھا کہ امن کے افق پر چھائے سياہ بادل کبھی نہ کبھی چھٹ ہی جائيں گے۔

رپورٹ: شہاب احمد صدیقی/ ماتھیاس بوئلنگر

ادارت: امجد علی