1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی کوریا کے سابق صدر کی خود کُشی

عابد حسین /امجد علی23 مئی 2009

جنوبی کوریا کے سابق ہر دلعزیز صدرRoh Moo-hyun نے رشوت کےالزامات کا بوجھ برداشت نہ کرتے ہوئے پہاڑ سے چھلانگ لگا کر خود کشی کر لی ہے۔ موجودہ حکومت اُن کی سرکاری تدفین کرنے کا پلان بنائے ہوئے ہے۔

https://p.dw.com/p/HvqL
جنوبی کوریا کے انجہانی صدر کی فائل فوٹو،تصویر: AP

جنوبی کوریا کے سابق صدر Roh Moo-hyun کی ہلاکت کو پولیس نے خودکشی قرار دے دیا ہے۔ اِس سلسلے میں اُن کے ذاتی کمپیوٹر سے گھر چھوڑتے وقت کا ایک بیان بھی جاری کیا گیا ہے۔ پولیس ترجمان کے مطابق سابق صدر نے اپنے گھر کے قریب واقع پہاڑ پر چڑھنے کے بعد ایک گہری کھائی میں چھلانگ کر خود کشی کی کوشش کی۔ اِس کوشش میں وہ شدید زخمی ہو گئے اور انہیں بُوسان شہر کے نیشنل یونیورسٹی ہسپتال پہنچایا گیا مگر وہ زخموں کی تاب نہ لا سکے۔

ہسپتال ذرائع کے مطابق سابق صدر کو سر پر گہری اور شدید ضربات لگی تھیں، جو اُن کی موت کا باعث بنیں۔ اُن کو رشوت ستانی کے الزام کے تحت ایک انکوائری کا سامنا تھا۔ رشوت ستانی کے علاوہ ٹیکس چھپانے کے ایک معاملے کی بھی حکام چھان بین کر رہے تھے۔

Süd Korea Mann ließt Zeitung über den Tod von Präsident Roh Moo-hyun at
جنوبی کوریا کے اخبارات میں اُن کی موت کو نمایاں انداز میں شائع کیا گیا۔تصویر: AP

تیس اپریل کو ٹیلی ویژن پر معذرت خوانہ بیان بھی اُنہوں نے خود پڑھا تھا۔ اپنے بیان میں اُنہوں نے کہا تھا کہ اُن کی اہلیہ نے ایک سابقہ قرضے کو ختم کرنے کے سلسلے میں Park Hae-Heon سے ایک لاکھ ڈالر لئے تھے، جو اُن کے خیال میں مدد تھی، نہ کہ رشوت۔ اسی طرح اُن کے کچھ رشتہ داروں نے اِسی تاجر Park Hae-Heon سے پانچ لاکھ ڈالر لئے تھے، جو اُن کے مطابق کاروبار میں سرمایہ کاری تھی۔

سن دو ہزار تین کے بعد پانچ سال تک جنوبی کوریا کے مسندِ صدارت پر براجمان رہنے والے Roh Moo-hyun کو رشوت ستانی کے الزام نے انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کردیا تھا۔ اِس الزام کی صحت کے وہ ہمیشہ انکاری رہے ہیں۔ جنوبی کوریا کے میڈیا کے مطابق الزام سے سابق صدر انتہائی زیادہ انتشار کا شکار ہو کر رہ گئے تھے اور وہ خیال کرتے تھے کہ انہوں نے اپنی قوم کو مایوس کیا ہے اور بار بار معذرت بھی اُن کے لئے ایک مشکل امر تھا۔

Roh Moo-hyun und Kim Jong II schütteln sich die Hände
بطور صدر، Roh Moo-hyun ، شمالی کوریا کے لیڈر سے ہاتھ ملاتے ہوئےتصویر: AP

رشوت ستانی کے حوالے سے جنوبی کوریا کے میڈیا میں بھی خبریں تواتر سے سامنے آ رہی تھیں، جس سے بھی اُنہیں پریشانی لاحق تھی۔ کئی لوگوں کے خیال میں اِس شدید ذہنی تناؤ کے دور میں شاید موت ہی اُن کا شافی علاج تھی۔ کئی دوسرے لوگوں کے خیال میں وکلاء اور وہ لوگ اِس واقعے کے ذمہ دار ہیں، جنہوں نے الزامات عائد کرتے وقت غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کیا تھا۔ جس کاروباری شخص Park Hae-Heon سے رشوت کی رقم لی گئی تھی، اُس کا کہنا ہے کہ سابق صدر کو عدالت کے سامنے ثابت کرنا چاہیئے تھا کہ کیا غلط ہے اور کیا درست۔

سابق صدر کی خودکشی کے حوالے سے بتایا گیا کہ وہ جمعے کو علی الصبح کی سیر کرنے کی غرض سے گھر سے باہر نکلے تھے۔ باسٹھ سالہ صدر نے بونگھوا نامی پہاڑ پر چڑھنے کے کوئی ایک گھنٹہ بعد ایک تیس فٹ تک گہری کھائی میں چھلانگ لگا دی تھی۔ جدید جنوبی کوریا کے کسی لیڈر کی خودکشی سے ساری قوم میں بے چینی کی لہر محسوس کی گئی ہے۔

سابق صدر کے کمپیوٹر سے ملنے والے خودکُشی کے بیان میں وہ لکھتے ہیں:’’آنے والے دِنوں میں جس تناؤ کا مجھے شکار ہونا پڑے گا، اُس کی شدت بہت زیادہ ہے، میری بقیہ زندگی دوسرے لوگوں پر بوجھ بن کر رہ جائے گی۔ میں کچھ بھی نہیں کر سکوں کا کیونکہ میں صحت مند بھی نہیں ہوں۔ میں نہ تو کتاب پڑھ سکتا ہوں اور نہ ہی کچھ لکھنے کے قابل ہوں۔ اداس ہونے کی ضروت نہیں، کیا موت اور زندگی فطرت کا حصہ نہیں ہیں؟ اِس لئے افسوس کی کوئی ضرورت نہیں۔ کسی کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ یہ میرا مقدر ہے۔ براہِ مہربانی میری لاش کو جلا دیا جائے اور گھر کے پاس ایک میرے نام کا کتبہ لگا دیں۔ جو کچھ میں کرنے جا رہا ہوں، اُس پر میں نے بہت سوچ بجار کر لیا ہے۔‘‘

موجودہ صدر Lee Myung-bak نے اِس واقعے کو انتہائی افسوسناک اور ناقابل یقین قرار دیا۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ وہ اُس قدیمی دوست سے بھی محروم ہو گئے ہیں، جس کے ساتھ مِل کر اُنہوں نے ملک میں جمہوریت کے استحکام کی کوششیں کیں اور دس سال تک اُن کے ساتھ حکومت سازی میں بھی شریک رہے۔ صدرِ جنوبی کوریا نے اپنے پیش رو کی باوقار اور سابقہ صدر کے احترام کے مطابق تدفین کے لئے وزراء کو ہدایت کر دی ہے ۔

آنجہانی صدر کا دورِ صدارت سن دو ہزار تین میں شروع ہوا تھا۔ کچھ ہی ماہ بعد اُن کو الیکشن کے ضوابط کے منافی کام کرنے پر اراکین پارلیمنٹ نے ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے معطل کردیا مگر دستوری عدالت نے اُن کو الزامات سے بری قرار دیا اور وہ دوبارہ منصبِ صدارت پر براجمان ہو گئے۔ سن دو ہزار آٹھ میں اُن کا عہد ختم ہو گیا۔ اِس دوران اُنہوں نے شمالی کوریا کے ساتھ تعلُقات کو بہتر خطوط پر اُستوار کرنے کی خاصی عملی کوششیں کیں۔