1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنگلات کو نئے سرے سے ڈیزائن کرنے کا منصوبہ

31 اکتوبر 2011

موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے جرمنی میں جنگلات کے شعبے کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ ماہرین موسمیات کے خدشات اگر درست ثابت ہوتے ہیں تو جرمنی میں ہزاروں درختوں کے خشک ہونے کے علاوہ درجہ حرارت میں بھی اضافہ ہوگا۔

https://p.dw.com/p/132Vj
تصویر: DW/Richard Fuchs

جرمنی کے مشرقی علاقے برانڈن بُرگ کے جنگلات میں پائے جانے والے 70 فیصد درختوں کا تعلق عالم نباتات کے صنوبری خاندان سے ہے اور یہ علاقائی درخت موسمیاتی تبدیلیوں کو برداشت نہیں کر سکتے۔ سائنسدانوں کے مطابق ان درختوں کے خاتمے سے پہلے نئے درخت لگائے جانے چاہیئں۔

بیرن ہارڈ گوئٹز تبدیلی کے لیے دباؤ محسوس کر رہے ہیں۔ ان کے دفتر کے پیچھے صنوبری درختوں پر مشتمل جنگل ابھی سرسبز ہے لیکن مستقبل میں یہ سب کچھ تبدیل بھی ہو سکتا ہے۔ ایبرز والڈے (Eberswalde) یونیورسٹی کے نباتات کے پروفیسر بیرن ہارڈ گوئٹز کہتے ہیں، ’’اگر یہ پیشین گوئیاں درست ثابت ہوتی ہیں کہ مستقبل میں موسم خشک اور گرم ہو گا، تو برانڈن بُرگ کے علاقائی درختوں کی کئی اقسام کو مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘

Bernhard Götz Waldumbau
بیرن ہارڈ گوئٹزتصویر: DW/Richard Fuchs

ابھی تک برانڈن بُرگ کے ایک ملین ہیکٹر سے زائد رقبے پر جنگلات کھڑے ہیں اور ان میں پائے جانے والے زیادہ تر درختوں کا تعلق Pines Family یا صنوبری درختوں کے خاندان سے ہے۔ نباتات کا یہ خاندان درختوں کی تقریباﹰ 115 قد آور اقسام پر مشتمل ہے۔ برانڈن بُرگ کے سائنسدانوں کے مطابق اگر درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے تو ان درختوں کو نقصان پہنچانے والے کیڑوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو گا اور یہ درخت تباہ ہونا شروع ہو جائیں گے۔ ماہر نباتات بیرن ہارڈ گوئٹز کا کہنا ہے کہ اگر ایک جنگل میں مختلف انواع کے درخت ہوں گے، تو کیڑے صرف ایک خاص قسم کے درختوں کے لیے ہی نقصان دہ ثابت ہوں گے اور باقی اقسام کے درخت ان حشرات کے حملوں سے محفوظ رہیں گے۔

Kiefern Monokulturen Waldumbau
ابھی تک برانڈن بُرگ کے ایک ملین ہیکٹر سے زائد رقبے پر جنگلات کھڑے ہیںتصویر: DW/Richard Fuchs

بیرن ہارڈ گوئٹز کے مطابق برانڈن بُرگ کے سائنسدانوں کے اہداف بہت واضح ہیں۔ وہ ایک ہی قسم کے درختوں کی جگہ مختلف اقسام کے درخت لگانا چاہتے ہیں۔

پروفیسر پیٹر سپاٹ ہیلف (Peter Spathelf) بھی ایبرز والڈے یونیورسٹی میں نباتات کے پروفیسر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آئندہ چالیس سے پچاس برسوں میں اس جرمن ریاست میں جنگلات کو دوبارہ ڈیزائن کرنے کی ضرورت ہے، ’’برانڈن بُرگ کے جنگلات کا 75 فیصد حصہ صنوبری درختوں پر مشتمل ہے جبکہ ہمارا ارادہ ہے کہ ان کی شرح کم کرتے ہوئے چالیس فیصد تک کر دی جائے۔‘‘

برانڈن بُرگ میں آئندہ چند برسوں کے دوران تجرباتی طور پر 145 ہیکٹر رقبے پر کھڑے جنگلات کاٹ کر اس رقبے پر نئے درخت اگائے جائیں گے۔ اس مقصد کے لیے کام کا آغاز کر دیا گیا ہے اور جلد ہی ایک سو ہیکٹر رقبے پر مختلف اقسام کے درخت دیکھے جا سکیں گے۔ اس محدود علاقے میں پائن فیملی کا ہر دوسرا درخت کاٹ دیا گیا ہے تاکہ وہاں لگائے گئے نئے درختوں تک سورج کی روشنی کافی حد تک پہنچ سکے۔

Ralf Kätzel Waldumbau
محکمہء جنگلات سے وابستہ رالف کیٹسلتصویر: DW/Richard Fuchs

نئی اقسام کے درختوں لگانے سے نئے خطرات بھی جنم لیں گے۔ کوئی بھی یہ بات یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ نئے درخت لگانے سے وہاں پہلے سے موجود درختوں یا مقامی جانوروں کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ ان خطرات کے باوجود برانڈن بُرگ میں بہت سے ماہرین نباتات پرامید نظر آتے ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق لاطینی امریکی درختوں کی چند اقسام ان جنگلات کے لیے انتہائی موزوں ہیں۔ لیکن اس کے بر عکس برانڈن بُرگ کے محکمہء جنگلات سے وابستہ رالف کیٹسل (Ralf Kätzel) کا کہنا ہے، ’’اس تناظر میں وفاقی جرمن صوبے سیکسنی میں کی جانے والی کوششیں ہمارے سامنے ہیں۔ وہاں ایشیا کے کئی سدا بہار درخت لگائے گئے تھے۔ تیس سے چالیس برس تک تو ان کی نشو ونما انتہائی شاندار تھی لیکن اب وہ مرنا شروع ہو گئے ہیں اور وہ بھی بہت بڑی تعداد میں۔‘‘

آیا جرمنی کے ایک حصے میں جنگلوں کو نئے سرے سے ڈیزائن کرنے کا منصوبہ کامیاب رہے گا، اس سوال کا جواب تو آنے والا وقت ہی دے سکے گا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ تیز رفتار موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث انسانوں کے پاس ایسے مسائل حل کرنے کے لیے وقت اب انتہائی کم رہ گیا ہے۔

رپورٹ: رِشارڈ فُکس / امتیاز احمد

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں