1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنگل ميں رہائش، مہاجرين مايوسی اور خوف کا شکار

عاصم سليم30 اکتوبر 2015

شام سے ہجرت کرتے وقت عبداللہ واعظ نے يورپی ملک سويڈن ميں ايک نئی، پر سکون زندگی کا خواب ديکھا تھا، ليکن آج سويڈن کے ايک گھنے جنگل ميں رہتے ہوئے وہ اِس نتيجے پر پہنچا ہے کہ يورپ ميں اُس کا کوئی مستقبل نہيں۔

https://p.dw.com/p/1Gx5J
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel

عبداللہ واعظ کو جب ديگر پناہ گزينوں کے ہمراہ اسٹاک ہوم سے تقريباً چار سو کلوميٹر شمال مغرب کی طرف واقع گاؤں لی مَیڈس فورسَن کے قريب گھنے جنگل ميں قائم لکڑی کے چھوٹے چھوٹے مکانات يا کيبز ميں لايا گيا، تو يہ سب حيران رہ گئے۔ چند پناہ گزينوں نے تو فوری طور پر سمجھوتا کر ليا اور اِن مکانات ميں رہائش اختيار کر لی تاہم کچھ نے احتجاج کے طور پر کيبز ميں رہنے سے انکار کر ديا۔

اميگريشن عملے کے ارکان واعظ سميت 53 پناہ گزينوں کو اِس مقام پر بسوں کے ذريعے پچھلے اتوار کے روز لائے تھے۔ احتجاج کرنے والے اور رہائش کے کسی متبادل بندوبست کا مطالبہ کرنے والے کچھ تارکين وطن نے گزشتہ روز تک اُن بسوں کا راستہ روکے رکھا، جن ميں اُنہيں اِس مقام تک لايا گيا تھا۔ گزشتہ رات ہی کہيں جا کر پناہ گزينوں نے ہمت ہار کر بسوں سے اترنے کا فيصلہ کیا ليکن پھر بھی ايک بس کا راستہ روکے رکھا۔ جنگل کے بيچ سخت سردی ميں يہ لوگ لکڑيوں کو آگ لگا کر خود کو گرم رکھ رہے ہيں۔

شامی پناہ گزين عبداللہ واعظ نے اِس بارے ميں خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’ہميں سمجھ نہيں آ رہا ہے کہ يہ لوگ ہميں اتنے سرد اور تاريک جنگل ميں کيوں لے آئے ہيں؟‘‘ اُن کے بقول اِس مقام پر پہنچتے ہی مہاجرين خوف کا شکار ہو گئے تھے۔ ايک ويران علاقے ميں وہ اِس طرح بالکل نہيں رہنا چاہتے۔

Deutschland Flüchtlinge an der deutsch-österreichischen Grenze
سويڈش حکام کا موقف ہے کہ اُن کے ملک ميں ہفتہ وار بنيادوں پر دس ہزار سے زائد پناہ گزين پہنچ رہے ہيںتصویر: picture-alliance/dpa/S. Kahnert

يہ امر اہم ہے کہ متعلقہ علاقے کی صاف ستھری آب و ہوا اور ہريالی کو مقامی آبادی ميں کافی پسند کيا جاتا ہے۔ سويڈش شہری موسم سرما ميں اسکيئگ کے سيزن کے دوران انہی لکڑی کے کيبنز ميں بڑے شوق سے آ کر رہتے ہيں، تاہم مشرقی وسطٰی، شمالی افريقہ اور ديگر خطوں کے شورش زدہ ممالک سے يہاں پہنچنے والے پناہ گزينوں کو يہ مقام رہنے کے ليے ہر گز موزوں نہيں لگا۔ واعظ نے کہا، ’’ہميں جنگلوں ميں رہنا پسند نہيں، يہ ہماری روايات اور طور طريقوں کے خلاف ہے۔‘‘

لی مَیڈس فورسَن کے مقام پر انيس ايسے کيبن موجود ہيں۔ تمام کيبنز صاف ستھرے ہيں اور اُن ميں سونے کے دو کمروں، غسل خانے، باورچی خانے کے علاوہ ٹھنڈے اور گرم پانی، فرج، مائکرو ويو، کپڑے دھونے کے ليے واشنگ مشين اور ٹيلی وژن کی سہوليات مہيا ہيں۔

اِس معاملے پر سويڈش حکام کا موقف ہے کہ اُن کے ملک ميں ہفتہ وار بنيادوں پر دس ہزار سے زائد پناہ گزين پہنچ رہے ہيں۔ ايسے ميں مہاجرين کے ليے رہائش کے انتظامات فراہم کرنے ميں کافی دشواريوں کا سامنا ہے۔ حکام متعدد مقامات پر خيمے لگا رہے ہيں تاکہ جنگ زدہ علاقوں سے بھاگ کر اور طويل مسافت کر کے سويڈن پہنچنے والوں کو فوری طور پر کم از کم رہائش اور کھانے پينے کی اشياء جيسی بنيادی سہوليات فراہم کی جا سکيں۔

لی مَیڈس فورسَن کے قريب واقع جنگلات ميں مہاجرين کے ليے رہنے کے بندوبست پر بات کرتے ہوئے ہجرت سے متعلق ايجنسی کی ترجمان ماریا لوفگرَین نے کہا، ’’ايسا نہيں ہے کہ يہ مقام بالکل ہی ويران علاقے ميں ہے۔ وہاں بسيں چلتی ہيں اور ايک دکان بھی موجود ہے۔‘‘ لی مَیڈس فورسَن کی آبادی قريب پانچ سو افراد پر مشتمل ہے۔

جنگل کے بيچ سخت سردی ميں يہ لوگ لکڑيوں کو آگ لگا کر خود کو گرم رکھ رہے ہيں
جنگل کے بيچ سخت سردی ميں يہ لوگ لکڑيوں کو آگ لگا کر خود کو گرم رکھ رہے ہيںتصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel

جہاں بہت سے يہ پناہ گزين لی مَیڈس فورسَن ميں رہائش کے انتظامات سے مطمئن نہيں، وہيں کچھ ايسے بھی ہيں جو سمجھوتا کر چکے ہيں۔ ارٹريا کے شہری پينتيس سالہ جميل عالم عارضی رہائش کے اس انتظام سے خوش ہيں۔ ان کا کہنا ہے، ’’ہم يہاں موجود ہونے پر خوش ہيں۔‘‘ عالم کے بقول کسی نہ کسی طرح وہ ايک نئی زندگی شروع کرنے کی کوشش کريں گے۔

ايک اور پناہ گزين نے اپنا نام ظاہر نہ کيے بغير بتايا کہ سويڈن کی طرف سے فراہم کردہ رہائش کے ليے وہ حکام کا شکر گزار ہے۔ شامی دارالحکومت دمشق سے تعلق رکھنے والے اس شخص کا کہنا ہے، ’’ميں ابھی يہاں رہنے کو تيار ہوں ليکن ہاں، اگر مجھے کوئی اور جگہ فراہم کی جاتی ہے، تو ميں وہاں منتقل ہو جاؤں گا۔ ميں سويڈش زبان سيکھنا چاہتا ہوں اور يہاں ملازمت کرنے کا خواہش مند ہوں۔ ميں پيشے کے اعتبار سے ايک انجينيئر اور استاد ہوں اور ميرے پاس اس ملک کو دينے کے ليے بہت کچھ ہے۔ ميں اسی بنياد پر سويڈن ميں مستقل قيام کرنا چاہتا ہوں۔‘‘