1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنگوں اور جنگی تیاریوں کے ماحول پر اثرات

2 اپریل 2010

جنگوں نے انسانی سماج کو ہمیشہ ہی تباہی اور بربادی کے تحفہ دئے۔ پانچ سو سال قبلِ مسیح سے لے کر سن 2000 تک 1022 بڑی جنگیں لڑی گئیں۔ سن 1100 عیسوی سے لے کر 1925 تک 35.5 ملین افراد صرف یورپی جنگوں میں لقمہ اجل بنے۔

https://p.dw.com/p/Mlsm
جاپان پر ایٹمی حملے نے لاکھوں انسانوں کو ہلاک کرنے کے علاوہ ماحول کو بھی تباہی سے دوچارکیاتصویر: AP

بسیویں صدی میں 165 بڑی جنگوں میں 165 ملین سے لے کر 258 ملین تک انسان ہلاک ہوئے۔ جنگ مخالف ویب سائٹ Environmentalists Against War کے مطابق بیسویں صدی میں پیدا ہونے والے تمام انسانوں میں سے چھ اعشاریہ پانچ فیصد کی موت کی ذمہ دار جنگیں اور مسلح تصادم بنے۔ پہلی عالمی جنگ کی وجہ سے آٹھ اعشاریہ چار ملین فوجی اور پانچ ملین شہری ہلاک ہوئے جبکہ دوسری عالمی جنگ نے سترہ ملین فوجیوں اور 34 ملین شہریوں کی زندگیوں کے چراغ گل کر دئے۔ جدید جنگوں میں مارے جانے والے 75 فیصد لوگ عام شہری تھے۔

جنگوں نے صرف ہلاکتوں کے انبار ہی نہیں لگائے بلکہ کرہء ارض کے ماحول کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا کر وجود انسانی کو بھی خطرے میں ڈال دیا۔ آج ہمارے سمندر، دریا، جنگلات، پہاڑ، میدان غرض یہ کہ قدرت کا وہ کون سا انمول تحفہ نہیں ہے، جو جنگی تباہ کاریوں سے متاثر نہ ہوا ہو۔

Raketen im Korea War Memorial Museum Flash-Galerie
ہتھیاروں کی دوڑماحولیاتی آلودگی کا ایک بڑا سبب ہےتصویر: AP

ایک فلسفی نے کہا تھا کہ کسی بھی جنگ میں سب سے پہلا قتل سچ کا ہوتا ہے۔ لیکن اگر یہ کہا جائے کہ اب جنگ کا پہلا نشانہ ماحول ہوتا ہے تو بھی غلط نہ ہوگا۔ جنگی طیارے جب فضا میں پرواز کے لئے بلند ہوتے ہیں، تو وہ صرف خوف و دہشت کے بازار ہی گرم نہیں کرتے بلکہ ان کی آغوش میں چھپا ہوا بارود زمین کی چھاتی کو بنجر کر دینے کا ایک بڑا سبب بنتا ہے۔ میزائلوں کی آگ کھیتوں کی ہریالی کو نگل جاتی ہے۔ جوہری دھماکوں کی گونج نہ صرف مضبوط چٹانوں میں ارتعاش پیدا کرتی ہے بلکہ اس وحشت ناک بم کا ایک ہی حملہ لاکھوں انسانوں کے پرخچے فضائے بسیط میں بکھیر دیتا ہے اور اس کے بعد بھی جوہری تابکاری کا خنجر وجود انسانی کے سینے میں اس طرح پیوست کرتا ہے کہ ہزاروں انسان سسک سسک کر جینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

B-52
ویتنام جنگ نے ملک کے چودہ فیصد جنگلات کو نگل لیاتصویر: AP

جنگ روایتی ہو یا غیر روایتی، وہ ہمارے ماحول کو زہرآلود کرنے کا ایک بہت بڑا سبب ہے۔ ویت نام کی جنگ کے دوران اِس بد قسمت ملک کے جنگلات، کھیت اور باغات پر 25 ملین بموں کی بارش کی گئی جبکہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی وجہ سے 19 ملین گیلن زہریلے مادوں نے بھی اس جنگ زدہ ملک کے وجود کو ایک خوفناک سانپ کی طرح ڈسا۔ اس جنگ کے دوران Agent Orange نامی Herbicide کو ویت نام کے دس فیصد حصے پرچھڑکا گیا۔ اس اسپرے کی وجہ سے جنوبی ویت نام کے 14 فیصد جنگلات تباہی سے دوچار ہوئے، جس میں 50 فیصد mangroves بھی شامل ہیں۔ Agent Orange میں شامل Dioxin اور دیگر کیمیائی ہتھیاروں سے نکلنے والے زہریلے مادوں نے زمین کی اندورنی تہوں اور دریاؤں کے پانی کو آلودہ کیا، جس نے آبی حیات اور انسان دونوں کو نقصان پہنچایا۔

بحیرہ بالٹک سے لے کر بحرِاوقیانوس تک لاکھوں ایکڑ زمین جنگی کیمیکلز اور جوہری فضلے کی وجہ سے آلودہ ہوگئی ہے۔ کمبوڈیا میں 1300 مربع میل رقبہ زمینی بارودی سرنگوں کی وجہ سے ناقابل کاشت ہو گیا۔ اس کے علاوہ 35 فیصد جنگلات بھی اس ملک میں 20 سالہ خانہ جنگی کی وجہ سے تباہی کا شکار ہوئے۔ انگولا میں 10 ملین زمینی بارودی سرنگوں نے بھی زرعی اراضی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جبکہ افغانستان اور بوسنیا سمیت دنیا کئی حصوں میں آج بھی ایسی بارودی سرنگیں انسانی زندگی اورماحول کو تباہ کن اثرات سے دوچار کئے ہوئے ہیں۔

1991 کی خلیجی جنگ کے دوران عراق پر88 ہزار ٹن بم گرائے گئے، جس سے نو ہزار گھرتباہ ہوئے۔ اس کے علاوہ پانی کا نظام، چار بڑے ڈیمز اور کئی انرجی پلانٹ بھی جنگی تباہ کاریوں سے محفوظ نہ رہے سکے۔ عراق نے دوران جنگ ایک ملین ٹن خام تیل خیلج فارس میں بہا دیا جبکہ صحرا میں بھی 50 مربع کلومیٹر کے علاقے میں تیل بہایا گیا۔ اس ماحولیاتی تباہی نے نہ صرف انسانی صحت کو خطرے میں ڈالا بلکہ نقل مکانی کرنے والے 25 ہزار پرندے بھی اس ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے موت کا شکار ہوئے۔

Militärübung in Südossetien
فوجی مشقوں کو ماحول کا خاموش دشمن سمجھا جاتا ہےتصویر: AP

اس جنگ کے دوران میزائلوں اور کچھ روایتی ہتھیاروں میں depleted Uranium کا بھی بے تحاشہ استعمال کیا گیا۔ برطانیہ کی رائل سوسائٹی برائے سائنس کے مطابق جو سپاہی depleted Uranium سے متاثرہ علاقوں میں رہے ہیں، انہیں پھیپھڑوں کے سرطان کا خطرہ ہوسکتا ہے۔ شکست خوردہ عراقی فوجیوں نے کویت میں تیل کے کئی کنوؤں کو آگ لگا دی تھی، جس نے زمین کے ایک بڑے رقبے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ جب اس آگ کو سمندر کے پانی سے بھجایا گیا، تو کئی علاقوں میں زیرِزمین نمکیات میں اضافہ ہوگیا۔ اس جنگ سے ماحول کو جو نقصان پہنچا وہ صرف چند علاقوں تک محدود نہیں تھا بلکہ اس پوری جنگ کے دوران 80 ہزار ٹن ایسی گیسیں بھی پیدا ہوئیں، جوعالمی درجہء حرارت میں اضافے کا باعث ہوسکتی ہیں۔

2002 میں افغانستان میں ایک چوتھائی ملین کلسڑبم گرائے گئے جب کہ 2003 میں عراق پر 28 ہزار راکٹس، بم اور میزائل برسائے گے۔ 2006 میں لبنان پر اسرائیلی حملے کے دوران بھی ایک ملین سے زائد کلسٹر بموں کی بارش کی گئی۔ گزشتہ 25 برسوں میں موزمبیق، ال سلواڈور، لبنان، روانڈا، لائیبریا، یوگنڈا، کولمبیا، صومالیہ، کانگو، برونڈی اور ایتھوپیا سمیت کئی ممالک میں جنگوں اور مسلح تصادموں کی وجہ سے ماحول کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ غرض یہ کہ اگر جنگوں اور مسلح تصادم کے واقعات سے ماحول کو پہچنے والے نقصانات کے بارے میں لکھا جائے، تو شاید لاکھوں کتابیں اور تحقیقی مقالات بھی ناکافی ہوں گے۔

GULF WAR OIL Golfkrieg Kuwait Panzer Irak p178
جنگِ خلیج کے دوران تیل کے کنوؤں میں لگائی جانے والی آگ نے خطے کے ماحول کو بری طرح متاثر کیاتصویر: AP

تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ یہ صرف جنگیں ہی نہیں بلکہ جنگی تیاریاں اورمختلف ممالک کے دفاعی ادارے بھی ہیں، جو ماحول کو آلودہ کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ انٹرنیشنل پیس بیورو، جنیوا کے مطابق دنیا بھر کی فوجیں اوزون کی تہہ میں دوچوتھائی کلوروفلوروکاربن گیسوں کے اخراج کی ذمہ دار ہیں۔ سرد جنگ کے دوران امریکہ اور سوویت یونین کی جنگی تیاریاں بڑے پیمانے پرمہلک مادے پیدا کرنے کے موجب بنیں۔ دنیا کی سات بڑی عسکری قوتوں نے2400 سے زائد جوہری دھماکے زیر زمین اور زمین کے اوپر کئے۔ زمین کے اوپر کئے گئے دھماکوں کی وجہ سے ایک اندازے کے مطابق 86 ہزار اموات ہوئی ہیں جبکہ ایک لاکھ پچاس ہزار قبل از وقت اموات بھی ان ہی تجربات کی مرہونِ منت ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف نوعیت کے کینسر کے دو ملین واقعات بھی انہی تجربات کی وجہ سے ہوئے۔

جنگی مشقوں کے دوران سمندر، فضا، جنگلات، صحرا، میدان اور پہاڑ ہمارے جنگی جنون کا خمیازہ بھگتے ہیں جبکہ جوہری اور دوسرے خطرناک ہتھیاروں کا صرف ذخیرہ ہی انسانی سروں پر خطرے کی طرح منڈلا رہا ہے۔ اس وقت دنیا میں ہزاروں کی تعداد میں نیوکلیئر وارہیڈزہیں۔ آج انسان کے پاس اتنے خطرناک ہتھیار ہیں، جو دنیا کو کئی بار آسانی سے تباہ کر سکتے ہیں۔ چرنوبل کا حادثہ آج بھی لاکھوں انسانوں کو یہ یاد دلاتا ہے کہ جوہری تنصیبات پر کو ئی ایک حادثہ بھی کتنے بڑے پیمانے پر ماحول کو متاثر کر کے بے شمار انسانی جانوں کو خطرے سے دو چار کر سکتا ہے۔

ہتھیاروں کی پیداوار، جنگیں اور جنگی تیاریاں انسانی وسائل کو گھن کی طرح کھا رہی ہیں۔ عالمی حدت سے ماحول کو پہنچنے والے نقصان پر کافی حد تک قابو پانے کے لئے 100 ارب یورو درکار ہیں جبکہ دنیا کا فوجی بجٹ 1000 بلین ڈالر سے بھی زیادہ ہے۔ صرف امریکہ ہر سال تقریبا 58 بلین ڈالر ملٹری ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ پر خرچ کر رہا ہے جب کہ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف چالیس بلین ڈالر میں دنیا کے تمام بچوں کو مفت ابتدائی تعلیم دی جا سکتی ہے۔ دنیا بھرمیں 50 ملین کے قریب سائنس دان، محقق اور دیگر ملازمین ہتھیاروں کی صنعتوں سے وابستہ ہیں۔ ان افراد کی صلاحتیوں کو ماحول کی بہتری اور انسانی فلاح کے کاموں کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

رپورٹ: عبدالستار

ادارت: مقبول ملک