’جنگی جرائم کو جائز سمجھنے والوں کی تعداد میں اضافہ‘
6 دسمبر 2016بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی کے ترجمان ایوان واٹسن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اب بھی عالمی سطح پر اکثریتی رائے جنگی جرائم کے خلاف ہے، تاہم کچھ ممالک میں سن 1999ء کے مقابلے میں اب ایسے افراد کی تعداد بڑھی ہے، جو شہری علاقوں میں بمباری اور بعض صورتوں میں تشدد کو جائز قرار دیتے ہیں۔
انٹرنیشنل ریڈکراس کمیٹی نے اس عوامی جائزے میں 16 ممالک میں 17 ہزار سے زائد افراد کی رائے لی، جس میں جنگ سے متعلق مختلف موضوعات پر سوالات کے جوابات حاصل کیے گئے۔ ’’پیپل اِن وار‘‘ یا ’’جنگ میں لوگ‘‘ نامی اس جائزے میں عوامی اکثریت کی رائے اور مختلف ریاستوں کی حکومتوں کی پالیسیوں اور فیصلوں میں بھی خاصا اختلاف سامنے آیا، جس میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن ممالک سرفہرست ہیں۔
ایوان واٹسن کے مطابق بڑی تعداد انہی لوگوں کی ہے، جو یہ سمجھتے ہیں کہ جنگ کے لیے حدود طے ہونا چاہیئں۔ ’’مگر جب اس حوالے سے گہرائی سے پوچھا جائے، تو ان کے لیے کوئی واضح جواب دینا مشکل دکھائی دیا مثلاﹰ اس جائزے میں 36 افراد نے کہا کہ جنگ میں پکڑے جانے والے دشمن جنگجو کو عقوبت دی جا سکتی ہے، حالاں کہ بین الاقوامی قانون اس کی ممانعت کرتا ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی پانچ مستقل رکن ریاستوں امریکا، روس، برطانیہ، چین اور فرانس سے تعلق رکھنے والے صرف چالیس فیصد افراد کسی دشمن کو شہری آبادی والے علاقے میں، جہاں غالب امکان عام شہریوں کے مارے جانے کا بھی ہو، غلط اقدام سمجھتے ہیں۔
بین الاقوامی ریڈ کراس کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ ایوان واٹسن نے اس رائے میں تبدیلی کہ وجہ جنگ زدہ علاقوں سے انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا بھر تک پہنچنے والی تصاویر سے لوگوں کی لاتعلقی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو متاثرہ افراد کے دکھ کی شدت محسوس کرنا چاہیے اور یہ سوچنا چاہیے کہ تنازعات کے شکار علاقوں میں کیا کچھ ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے مختلف ممالک کی جانب سے استعمال کیے جانے والے بیانیے بھی عوامی رائے میں اس تبدیلی کی ایک وجہ ہیں۔ ’’جب عوام کو یہ کہا جاتا ہے کہ بم بس پھٹنے ہی والا ہے اور جب تک مشتبہ افراد کو پکڑ کر انہیں اذیت دے کر اہم معلومات حاصل نہیں کر جاتیں، خطرہ نہیں ٹلے گا۔ اس طرح لوگوں کو یہ بتا دیا جاتا ہے کہ عقوبت دہی کوئی غلط عمل نہیں ہے۔‘‘