1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنید جمشید: اسٹائل آئیکون سے مذہبی شخصیت بننے کا سفر

صائمہ حیدر
15 دسمبر 2016

اسلام کی تبلیغ کے لیے موسیقی کو ترک کرنے والے جنید جمشید کے ملی نغمے ’دل دل پاکستان‘ کو آج غیر سرکاری قومی ترانے کی حیثیت حاصل ہو چکی  ہے۔

https://p.dw.com/p/2Ty5I
Pakistan Plane Crash Junaid Jamshed
اِس اسٹائل آئیکون نے مغربی پہناوا ترک کیا، روایتی شلوار قمیض کو اپنا ملبوس بنایا، داڑھی بڑھائی اور گانوں کی جگہ نعت گوئی کا آغاز کر دیاتصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Rabbani

سات دسمبر بروز بدھ حادثے کا شکار ہونے والے پاکستان کی قومی ایئر لائن کے جہاز میں جنید جمشید اپنی دوسری اہلیہ نیہا کے ساتھ چترال سے اسلام آباد واپس جا رہے تھے۔ جنید جمشید کو پاکستان میں پاپ میوزک کے بانیوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

 جمشید تین ستمبر سن انیس سو چونسٹھ میں پاکستان کے شہر کراچی میں پیدا ہوئے۔ اسّی کی دہائی کے اواخر میں جمشید نے ’وائٹل سائنز‘ نامی میوزک بینڈ میں مرکزی گلوگار کی حیثیت سے ایک ملی نغمہ گایا ۔ اِس نغمے کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی اور جمشید جنرل ضیاالحق کی آمرانہ حکومت کے دور میں پروان چڑھتی نسل کے اسٹائل آئیکون بن گئے۔

 'وائٹل سائنز‘ نے روایتی طبلے اور مغربی گٹار کے ملاپ سے نئی صنف ’صوفی راک‘ کی تخلیق کی راہ بھی ہموار کی۔ یہ صنف اب تمام جنوبی ایشیا  میں انتہائی مقبول ہے۔ بیسیویں صدی کے اوّلین عشرے میں جنید جمشید نے میوزک میں اپنے کیریئر کو خیر آباد کہتے ہوئے اسلام کے سنّی مسلک سے تعلق رکھنے والی ایک تبلیغی جماعت میں شمولیت اختیار کر لی۔ موسیقی چھوڑنے کے اِس فیصلے پر جمشید کو اُن کے کئی مداحین کی جانب سے تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

DVD von «Disco-Mullah» Junaid Jamshed
موسیقی چھوڑنے کے اِس فیصلے پر جمشید کو اُن کے کئی مداحین کی جانب سے تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑاتصویر: picture-alliance/dpa/Z. Khan

پاکستان کے اِس اسٹائل آئیکون نے مغربی پہناوا ترک کیا، روایتی شلوار قمیض کو اپنا ملبوس بنایا، داڑھی بڑھائی اور گانوں کی جگہ نعت گوئی کا آغاز کر دیا۔ تاہم پاکستانی لبرل طبقے کو اُس وقت مایوسی کا سامنا ہوا جب جنید جمشید نے خواتین کے بارے میں متنازعہ بیانات دینے شروع کیا۔ حتیٰ کہ اُنہوں نے ٹی وی کی ایک خاتون میزبان سے یہاں تک کہہ دیا کہ خواتین کو گاڑی چلانے اور مرد سرپرست کے بغیر گھر سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

 پاکستان میں قدامت پسند سوچ رکھنے والے افراد نے البتہ جمشید کے اِس نئے روپ کو بہت پسند کیا اور اُنہیں بطورِ رول ماڈل دیکھا جانے لگا۔ سن دو ہزار چودہ میں پیغمبرِ اسلام کی ایک زوجہ کے حوالے سے اپنی ایک تقریر میں نامناسب کلمات کہنے پر جنید جمشید کے خلاف تنازعہ کھڑا ہو گیا۔ یہ غالباﹰ ملک میں مذہبی سوچ رکھنے والے افراد کے ساتھ اُن کے اچھے روابط تھے جن کے باعث جمشید کے معافی مانگنے پر اُن کے خلاف توہینِ مذہب کا مقدمہ نہیں چلایا گیا۔

Junaid Jamshed DCD
بیسیویں صدی کے اوّلین عشرے میں جنید جمشید نے میوزک میں اپنے کیریئر کو خیر آباد کہہ دیااور تبلیغی جماعت میں شامل ہو گئےتصویر: picture-alliance/AP Photo/B.K. Bangash

 مذہبی تبلیغ کے علاوہ جنید جمشید نے سن 2002 میں خواتین اور مرد حضرات کے لیے ملبوسات کے کاروبار کا آغاز کیا جو بہت منافع بخش ثابت ہوا۔ آج  ُان کے اپنے نام سے ملبوسات بنانے والی کمپنی ‘جے ڈاٹ‘ پاکستان بھر میں کام کر رہی ہے۔

اپنے آخری ٹوئٹ میں جنید جمشید نے چترال سے اپنے ساتھی مبلّغین کے ساتھ اپنی تصاویر پوسٹ کی تھیں۔ جنید جمشید کی موت پر پاکستانی سیاست دان، علماء اور اُن کی موسیقی کے زمانے کے مدّاحین سوگوار ہیں۔ جنید جمشید کے پسماندگان میں اُن کی پہلی اہلیہ عائشہ اور چار بچے شامل ہیں۔