1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنیوا کانگریس میں فوکس چین میں موت کی سزاوٴں پر

25 فروری 2010

جنيواميں24 فروری سے سزائے موت کے خلاف چار روزہ عالمی کانگريس جاری ہے جس ميں اقوام متحدہ،عالمی تنظيموں اورغير حکومتی تنظيموں کے نمائندے دنيا بھرميں سزائے موت کے خاتمے کے طريقوں پرغور کررہے ہيں۔

https://p.dw.com/p/MBIu
تصویر: AP

اس سلسلے ميں امريکہ، سعودی عرب، پاکستان،ايران اور چين پر خاص طور سے نظريں لگی ہوئی ہيں، جہاں سن 2008ء ميں دنيا بھر ميں موت کی 70 فيصد سزائيں دی گئيں۔ موت کی سب سے زيادہ سزائيں چين ميں دی جاتی ہيں۔

China Todesstrafe
موت کی سب سے زيادہ سزائيں چين ميں دی جاتی ہیںتصویر: AP

سزائے موت دئے جانے کے سلسلے ميں چين نے ايک افسوسناک ريکارڈ قائم کيا ہے۔ چين ميں ہر سال سزائے موت پانے والے افراد کی تعداد دنيا بھر ميں موت کی سزا پانے والے افراد کی مجموعی تعداد سے بھی زيادہ ہے۔ اگرچہ چين ميں سن 2009 ء ميں دی جانے والی موت کی سزاؤں کے بارے ميں اعدادو شمار ابھی تک دستياب نہيں ہيں ليکن ايمنيسٹی انٹرنيشنل کا خيال ہے کہ يہ تعداد اُس سے پہلے کے سال سن 2008ء سے کچھ زيادہ کم نہيں ہوگی۔ چينی حکومت سزائے موت کے بارے ميں کوئی اعدادو شمار جاری نہيں کرتی بلکہ ان کے لئے صرف ميڈيا کی خبروں پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے۔ ايمنيسٹی انٹرنيشنل کی جرمن شاخ سے وابستہ ڈرک پلائٹر نے کہا:’’چينی حکومت اس بارے ميں کسی قسم کے اعدادو شمار جاری نہيں کرتی۔ ايسا معلوم ہوتا ہے کہ انہيں رياستی راز کی حيثيت دی جاتی ہے۔ اس کا مطلب يہ ہے کہ سرکاری ذرائع سے يہ بالکل معلوم نہيں کيا جاسکتا کہ چين ميں سزائے موت کے فيصلوں پر عملدرآمد کی حقيقی شرح کيا ہے۔‘‘

Symbolbild Abschaffung der Todesstrafe
ایمنسٹی انٹرنیشنل دنیا بھر میں سزائے موت کے خاتمے کا مطالبہ کرتی ہےتصویر: picture-alliance / dpa

سن 2007ء ميں چينی حکومت نے ايک قانون منظور کيا جس کے تحت سپريم عوامی عدالت سزائے موت کے ہر فيصلے کی چھان بين کرے گی۔ اس کا مقصد سزائے موت دئے جانے کو بہت مشکل بنانا تھا۔ انسانی حقوق کے ڈرک پلائٹر جيسے کارکنوں کو اميد ہے کہ اس کے نتيجے ميں اب چين ميں موت کی سزا پانے والوں کی تعداد ميں کمی ہوجائے گی۔ چينی قانون عدالتوں کو 68 جرائم پر سزائے موت سنانے کا اختيار ديتا ہے۔ ان ميں انکم ٹيکس کا غبن،عصمت فروشی ميں دلالی اور منشيات کا کاروبار بھی شامل ہيں۔ حکومت اُن جرائم کی تعداد ميں کمی پر تيار نہيں جن پر سزائے موت دی جاسکتی ہے۔ چين،اپنے قانونی نظام ميں بہت سی اصلاحات کے باوجود ابھی تک ايک آئينی رياست نہيں بن سکا ہے۔ چين ميں عدليہ کميونسٹ پارٹی کے تحت ہے۔

سزائے موت کے خلاف ایک عالمی اتحاد سے منسلک آؤريلئے پلاسا Aurelie Placais نے الزام لگايا کہ چين ميں سزائے موت کے فيصلوں کے پيچھے سياسی مقاصد بھی ہوتے ہيں۔ انہوں نے اس سلسلے ميں تبت ميں سن 2008ء کی بغاوت اور شمال مغربی صوبے سنکيانگ ميں سن 2009ء کے فسادات کے بعد تبتيوں اورايغوروں کو سزائے موت دئے جانے کو بطور مثال پيش کيا:’’تبتيوں اور ايغوروں کے بارے ميں ہم اچھی طرح سے واقف ہيں کہ اُنہيں سياسی وجوہ کی بناء پر موت کی سزائيں دی گئيں۔ سنکيانگ ميں ہنگامے جولائی ميں ہوئے تھے اور سزائے موت دئے جانے کا آغاز نومبر ہی ميں ہوگيا تھا۔ ظاہر ہے کہ صرف پانچ ماہ ميں نہ تو وکلاء تک رسائی کا موزوں موقع اور نہ ہی صحيح طور پر معافی کی درخواست پر کارروائی ممکن ہے۔‘‘

تاہم پلاسا کو اميد ہے کہ چين ميں سزائے موت کے واقعات ميں کمی ہوگی کيونکہ چين عالمی سطح پر اور عالمی رائے عامہ کے سامنے اپنی تصوير کو بہتر بنانا چاہتا ہے۔ چين نے، سزائے موت کے خلاف ہونے والی عالمی کانگريس ميں مدعو کئے جانے والے ، انسانی حقوق کے چينی کارکنوں کو بھی کانگريس ميں شريک ہونے سے روکنے کی کوشش نہيں کی ہے۔

رپورٹ: شہاب احمد صدیقی

ادارت: عاطف بلوچ