1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جوانی میں اولمپک سائیکلسٹ، بڑھاپے میں رکشہ ڈرائیور

23 مئی 2011

1960 کے روم اور 1964 کے ٹوکیو اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے اور ایشین گیمز کے علاوہ کامن ویلتھ گیمز میں ملک کے لیے کئی میڈل جیتنے والے سائیکلسٹ محمد عاشق پیرانہ سالی میں لاہور کی سڑکوں پر رکشہ چلانے پر مجبور ہیں۔

https://p.dw.com/p/11MGQ
اس وقت 82 سالہ محمد عاشق رکشہ چلا کر اپنا گزارا کر رہا ہےتصویر: DW

اس وقت 82 سالہ محمد عاشق نے، جو لاہور کے علاقے سمن آباد کی ایک تنگ گلی میں کرائے کے ایک چھوٹے سے مکان میں رہتے ہیں، ڈوئچے ویلے کے ساتھ گفتگو میں بتایا کہ وہ حالات کے ہاتھوں تنگ آ کر رکشہ چلانے پر مجبور ہوئے۔

انہوں نے بتایا، ’’پہلے میرے پاس ایک ویگن اور ایک ذاتی مکان بھی تھا۔ مگر بیوی کی بیماری اور تنگدستی کے باعث مجھے دونوں املاک بیچنا پڑیں۔ اب میں گز شتہ آٹھ سال سے رکشہ چلا رہا ہوں۔ روزانہ دو تین سو روپے کما لیتا ہوں، جن سے مکان کے کرائے اور بیمار بیوی کے علاج سمیت روزمرہ اخراجات بڑی مشکل سے پورے کرتا ہوں۔‘‘

محمد عاشق نے سن 1958 کے ٹوکیو منعقدہ ایشین گیمز میں سلور میڈل جیتا تھا مگر اسی ایونٹ میں روڈ ریس جیت کر انہیں عالمی شہرت ملی تھی۔

ehemaliger olympischer Fahrradfahrer Aashiq
محمد عاشق کو حکومت نےچار بار قومی ہیرو کے ایوارڈ سے نوازاتصویر: DW

عاشق کے بقول پاکستان میں ان سے بڑا کوئی سائیکلسٹ پیدا نہیں ہوا۔ اس لیے انہیں سب سے زیادہ اذیت اپنے ان 70 تمغوں کو دیکھ کر ہوتی ہے، جو انہوں نے اپنےکیر یئر کے شباب میں قومی اور بین الاقوامی مقابلوں میں جیتے تھے۔

محمد عاشق نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’مجھے چار بارحکومت نے قومی ہیرو کے ایوارڈ سے نوازا۔ مگر اب یہ سارے میڈل میرے کسی کام کے نہیں کیونکہ اگر میں انہیں فروخت بھی کرنا چاہوں تو ان کا کوئی خریدار نہیں ملے گا۔‘‘

ستم ظریفی یہ کہ عاشق کے بقول دانستہ طور پر ایک ریس نہ ہارنے کی پاداش میں انہیں ان کے آجر ادارے پاکستان ریلویز کی ملازمت سے بھی ہاتھ دھونا پڑے جبکہ پاکستان سائیکلنگ فیڈریشن نے بھی کبھی مڑ کر ان کی خبر نہیں لی۔

محمد عاشق کی خواجہ ناظم الدین سے لےکر ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر نواز شریف تک پاکستان کے ہر فوجی اور سول حکمران کے ساتھ بلیک اینڈ وائٹ اور رنگین تصاویر ان کی حکومتی ایوانوں تک رسائی کا ثبوت تو ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ پھر ماضی کے اس عظیم سائیکلسٹ کی مشکلات اور محرومیاں ختم کیوں نہیں ہوتیں؟

Flash Galerie ehemaliger olympischer Fahrradfahrer Aashiq
تصویر: DW

اس سوال کے جواب میں محمد عاشق کا کہنا تھا کہ پہلےتو انہوں نے کبھی کسی سے کچھ نہیں مانگا تھا مگر پھر حالات سے تنگ آ کر انہوں نے صدر مملکت اور وزیر اعظم کے علاوہ وزیر اعلیٰ پنجاب کو بھی کئی خطوط لکھے کہ انہیں ریلوے کے محکمے سے ان کی پینشن دلوائی جائے مگر ’کوئی شنوائی پھر بھی نہیں ہوئی‘۔ محمد عاشق کا کہنا ہے کہ وہ معاشرے سے ہمت ہارے بغیر لڑتے رہیں گے کیونکہ وہ مایوس ہو جانے والوں میں سے نہیں ہیں۔

دوسری طرف پاکستان سائیکلنگ فیڈریشن کو محمد عاشق کے مالی مجبوریوں کا شکار ہونے کی بظاہر کوئی زیادہ پرواہ نہیں کیونکہ فیڈریشن کے اعلیٰ عہدیدار حسب معمول گرمیوں کی چھٹیاں منانے ان دنوں غیر ملکی دورے پر ہیں۔ ڈوئچے ویلے نے جب اس صورتحال کی طرف پاکستان سائیکلنگ فیڈریشن کے ترجمان وقار علی کی توجہ مبذول کروائی تو کچھ دیر ٹال مٹول سے کام لینے کے بعد وقار علی نے بھی محمد عاشق کی چمڑی سے زیادہ دمڑی کا رونا رونا شروع کر دیا۔ وقار علی کا کہنا تھا کہ فیڈریشن کے پاس تو کوئی ایونٹ کروانے کے لیے بھی فنڈز نہیں۔ ’’ہم اپنا ٹریک تک خود مرمت کرتے ہیں اور ویسے بھی اگر وہ رکشہ چلا رہے ہیں تو کام کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔‘‘

پاکستان میں قومی ہیروز کے ساتھ ایسے سوتیلی ماں جیسے سلوک کو اخبار پاکستان ٹو ڈے کے اسپورٹس ایڈیٹر آغا اکبر بے حس اور خود غرض معاشرتی رویوں کا عکاس قرار دیتے ہیں۔ آغا اکبر کا کہنا تھا کہ سوسائٹی میں اسپورٹس، فن اور ادب کے ساتھ دوستانہ رویے کی روایات دم توڑ رہی ہیں۔ کارپوریٹ سیکٹر کی اپنی الگ ترجیحات ہیں اور اسپورٹس آرگنائزرز ’چل چلاؤ کی عکاس پالیسیوں‘ پر عمل پیرا ہیں جو انتہائی افسوسناک بات ہے۔

ایسے میں حالات کی سولی پر لٹک کر بھی محمد عاشق جیسے کھلاڑی اور انسان کا اپنی شکست قبول نہ کرنا اس المناک صورت حال کا شاید واحد مثبت پہلو ہے۔

رپورٹ: طارق سعید، لاہور

ادارت: عصمت جبیں