1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جہادیوں کی کارروائیاں، ادلب میں شامی فورسز کی پسپائی

عاطف بلوچ9 ستمبر 2015

شام میں فعال القاعدہ کے جنگجوؤں اور اتحادیوں نے صوبہ ادلب میں حکومتی فورسز کو پسپا کرتے ہوئے ایک اہم فوجی اڈے پر قبضہ کر لیا ہے۔ اس پیشرفت کو دمشق حکومت کے لیے ایک تازہ دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1GTjY
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Malla

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بتایا ہے کہ النصرہ فرنٹ اور اس کے اسلام پسند اتحادی جنگجوؤں نے بدھ کے دن ابو ظہور نامی فوجی ہوائی اڈے پر قبضہ کر لیا۔ صوبہ ادلب میں شامی فورسز کا یہ آخری اڈہ تھا، جو ابھی تک ان جنگجوؤں سے محفوظ تھا۔ سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے بتایا ہے کہ جنگجو گزشتہ دو برسوں سے اس فوجی اڈے کا محاصرہ کیے ہوئے تھے۔

شامی تنازعے پر نظر رکھنے والی غیر سرکاری تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے سربراہ رامی عبدالرحمان نے بتایا، ’’النصرہ فرنٹ اور اس کے کچھ اتحادی گروہ منگل کے دن سے ہی اپنی کارروائیوں میں تیزی لے آئے تھے۔ انہوں نے بدھ کے دن آخر کار اس اہم فوجی ہوائی اڈے کا کنٹرول حاصل کر لیا۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ منگل کی رات کو ہی یہ جنگجو اس ملٹری بیس میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔

رامی عبدالرحمان کے بقول، ’’اب ادلب صوبے میں صدر بشار الاسد کی افواج نہیں رہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ریت کے طوفان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جنگجوؤں نے کامیاب پیشقدمی کی، کیونکہ طوفان کی وجہ سے شامی فضائیہ بمباری کرنے کے قابل نہیں رہی تھی۔ بتایا گیا ہے کہ ادلب میں اب صرف کچھ شیعہ اکثریتی دیہات ہیں، جہاں شامی فورسز لبنانی جنگجو گروہ حزب اللہ کے تعاون سے اپنا اثر و رسوخ قائم رکھے ہوئے ہیں۔

Symbolbild IS Soldaten
شام کے سرکاری میڈٰیا نے بھی ملکی فوج کی اس تازہ ناکامی کا اعتراف کر لیا ہےتصویر: picture alliance/ZUMA Press/Medyan Dairieh

شام کے سرکاری میڈٰیا نے بھی ملکی فوج کی اس تازہ ناکامی کا اعتراف کر لیا ہے۔ سرکاری ٹیلی وژن کے مطابق شامی فورسز نے ابو ظہور نامی فوجی اڈے سے پسپائی اختیار کر لی ہے۔ اس نئی کامیابی کو شدت پسند گروہ النصرہ فرنٹ کے لیے انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ گروہ مارچ میں ادلب کے صوبائی دارالحکومت پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے تقریباﹰ پورے صوبے کو اپنے قابو میں کر لیا تھا۔

یہ امر اہم ہے کہ شامی صدر بشار الاسد کی افواج گزشتہ چار برسوں سے مختلف عسکری گروہوں کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں۔ جولائی میں ہی صدر اسد نے اعتراف کیا تھا کہ ان کی فورسز تھکن کا شکار ہو چکی ہیں۔ شامی تنازعے کے دوران اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک کم از کم دو لاکھ چالیس ہزار افراد مارے جا چکے ہیں۔