1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جی سیون کے روم منعقدہ وزارتی اجلاس کا اعلامیہ

15 فروری 2009

عالمی مالیاتی بحران کے تناظر میں پیدا شدہ کساد بازاری نے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں میں بے چینی کا احساس پایا جاتا ہے۔ اِس معاملے کی اہمیت روم میں ترقی یافتہ ملکوں کے وزرائے خزانہ کی میٹنگ میں بھی محسوس کی گئی۔

https://p.dw.com/p/GuIj
پہلی مرتبہ جی سیون اجلاس میں شرکت کرنے والے نئے امریکی وزیر خزانہ ٹموتھی گائٹنرتصویر: AP

یورپی ملک اٹلی کے دارالحکومت روم میں گروپ سیون کے وزرائے خزانہ اور مرکزی بینکوں کے سربراہان کی میٹنگ کے بعد جاری ہونے والے اختتامیے میں اِس کا اعادہ کیا گیا ہے کہ عالمی مالیاتی بحران کے اثرات کے باعث پیدا شدہ کساد بازاری کے خا تمے کی تمام تر تحفظات کے باوجود ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ کساد بازاری کے لئے حکومتی کوششوں کو اب پروٹیکشنزم کے ذُمرے میں لایا جا رہا ہے۔

G7 Gipfel in Rom
جرمن وزیر خزانہ شٹائن بروک روم کانفرنس کے موقع پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئےتصویر: AP

کامیابی کا عندیہ: اِس میٹنگ میں پہلی بار امریکہ کے نئے وزیر خزانہ Timothy Geithner نے شرکت ہے۔ امریکی وزیر خزانہ ٹموتھی گائٹنر نے میٹنگ میں اپنی شرکت کے بعد مالیاتی اصلاحات کے سلسلے میں کچھ کامیابی کا بھی عندیہ دیا۔ انہوں نے کمزور بینکاری نظام کو بہتر کرنے کے لئے اپنے تجویز کردہ دو ٹریلیئن ڈالر کے پروگرام کو بھی آگے بڑھایا۔ وزرائے مالیات نے امریکی وزیر خزانہ کے ساتھ پہلی ملاقات کو استحسانی نظروں سے دیکھا ہے۔

اِس میٹنگ میں شریک ملکوں میں امریکہ، جرمنی، جاپان، فرانس، برطانیہ، کینیڈا اور اٹلی کے علاوہ روس کے نما ئندے شامل تھے اور اِس میں عالمی مالیاتی بحران اور مالی منڈیوں میں پیدا عدم اعتماد اعلیٰ سطحی معاملہ قرار دیا گیا۔

G7 Gipfel in Rom
روم میٹنگ میں شریک روسی وزیر خزانہتصویر: AP

جرمن وزیر خزانہ پیئر شٹائن بروک کا خیال ہے کہ امریکی وزیر خزانہ سے مل کر اقتصادی بحران سے نمٹنے کی طرف بڑھا جائے گا۔ اُن کا مزید کہنا ہے کہ براہ راست بات چیت ایک ایسا ماحول فراہم کرتی ہے جس میں مشترکہ طور پر باہمی صلاح مشورے سے اقتصادی بحران سے نمٹنے کے لئے بہتر فیصلے کئے جانے کی گنجائش ہو تی ہے۔

G7 Gipfel in Rom
روم میٹنگ میں شریک جاپانی وزیر خزانہتصویر: AP

کساد بازاری : میٹنگ میں مختلف ترقی یافتہ ملکوں کی جانب سے کساد بازاری کے اثرات سے نمٹنے کے لئے متعارف کروائے گئے اقتصادی پیکج کے حوالے سبےبھی بازگشت سنائی دی۔ خاص طور سے اِس کے ساتھ جڑی احتیاطی اور حفاظتی احساسات بشمول اقوام کے درمیان اقتصادی روابط میں پیدا ہوتے کھچاؤ کا تذکرہ میٹنگ میں کیا گیا۔

چینی کرنسی سمیت دوسری کرنسیوں کے معاملات پر بھی میٹنگ میں بات کی گئی اور حالیہ چینی مالیاتی پالیسیوں کے تناظر میں یین پر نکتہ نظر میں نرمی کا احساس محسوس کیا گیا ہے۔

لائحہ عمل: روم میٹنگ میں اِس کا بھی اظہار کیا گیا کہ اقتصادی پالیسیوں کو واضح کرنے میں پروٹیکشنزم سے ہر ممکن طریقے سے بچنے کی کوشش کی جائے گی۔ آزاد عالمی تجارت کے فروغ کے حوالے سے دوہا ڈائیلاگ کو بھی منطقی انجام دینے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔ روم کانفرنس کا بنیادی مقصد اپریل کے مہینے میں لندن میں شیڈیول ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں کے لیڈ روں کے کانفرنس کے ایجنڈے کو کوئی ممکنہ صورت دینابھی تھی۔

پروٹیکشنزم بنیادی طور اقتصادیات کی وہ پالیسی ہے جب ملکوں کے درمیان باہمی تجارت میں کھچاؤ کا احساس خاص طور سے درآمدات کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ اِس دوران غیر ملکی مال کو بازاروں میں لانے کو بھی حکومتی سطح پر ناپسندیدگی سے دیکھا جاتا ہے۔ عموماً کمزور اقتصایات کے دور میں ملکی تاجروں اور مزدوروں کے حقوق اور مالی معاملات کو بھی بیرونی درآمدات کو محدود کر کے تقویت دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اِس میں تجارتی کوٹے سمیت کئی اور امور کے علاوہ کرنسیوں کا تبادلہٴ ریٹ بھی شمار کیا جاتا ہے۔ موجودہ اقتصادی بحران میں کئی ملکوں کی جانب سے درامدات کو محدود کرنے کا احساس پایا جاتا ہے اور تمام بین الاقوامی میٹنگز میں اِس پروٹیکشنزم پر اب بات کی جا رہی ہے۔