1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حالات سے تنگ ماں، چار بچیوں کو پانی کی ٹینکی میں پھینک دیا

عبدالغنی کاکڑ، کوئٹہ5 مئی 2016

پاکستانی صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں غربت اور بدحالی سے تنگ ماں نے چار کمسن بچیوں کو پانی کی ٹینکی میں پھینک کر قتل کر دیا ہے اور بعد میں خود بھی ٹینکی میں چھلانگ لگا دی تاہم ماں کو زندہ بچا لیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Iimh
Pakistan Provinz Quetta Trauernde Eltern nachdem Kinder ertranken
تصویر: A. G. Kakar

کوئٹہ کے ایک سینئر پولیس افسر ظہور احمد نے بتایا ہے کہ یہ لرزہ خیز واقعہ کوئٹہ اسمنگلی کے علاقے کلی فیض آباد میں پیش آیا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا، ’’ابتدائی طور پر ہمیں جو معلومات ملی ہیں ان کے مطابق محمد خان نامی شخص کلی فیض آباد میں گزشتہ کئی سالوں سے رہائش پذیر ہے۔ ان کے گھر میں آج اس کی بیوی (س) نے اہل خانہ کی غیر موجودگی میں چار بچیوں، دو سالہ بی بی زکیہ، تین سالہ بی بی فرزانہ، چار سالہ پروانہ اور چھ سالہ یاسمین کو پہلے پانی کی ٹینکی میں پھینکا اور بعد میں خود بھی ٹینکی میں چھلانگ لگا کر خودکشی کی کوشش کی۔ ماں کو زندہ بچا لیا گیا ہے لیکن چاروں بچیاں پانی میں ڈوب کر دم توڑ گئی تھیں۔ لاشیں ہسپتال منتقل کر دی گئی ہیں، پوسٹ مارٹم کے بعد مزید کارروائی کی جائے گی۔‘‘

ظہور احمد کا کہنا تھا کہ اس واقعے کی اطلاع پولیس کو عینی شاہدین نے دی، جن کے بیانات بھی ریکارڈ کر لئے گئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا ، ’’ہم یہ معلوم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس واقعے کے پیچھے کچھ اور عوامل تو کارفرما نہیں ہیں۔ بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ گھریلو ناچاکی کا شاخسانہ ہے۔ کیونکہ ملنے والی معلومات کے مطابق خودکشی کی کوشش کرنے والی عورت گھریلو حالات کی وجہ سے بھی ذہنی پریشانی کا شکار رہی ہے۔‘‘

ہلاک ہونے والی بچیوں کے والد محمد خان کے بقول ابھی تک انہیں یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ ان کی بچیوں کو ماں نے کیوں قتل کیا۔

سول ہسپتال کوئٹہ میں ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے محمد خان نے روتے ہوئے بتایا ، ’’میں گھر میں نہیں تھا ہمسایوں نے اطلاع دی کہ گھر میں یہ واقعہ پیش آیا ہے۔ میری چار بچیوں میں سے دو بچیاں زکیہ اور فرزانہ بہت کمسن تھیں۔ انہیں پہلے ٹینکی میں پھینکا گیا تھا۔ اس لئے ان کی موت پہلے واقع ہو گئی تھی۔ دو بڑی بیٹیاں پروانہ اور یاسمین جو کہ اسکول گئی ہوئی تھیں کو اسکول سے واپسی پر ٹینکی میں پھینکا گیا اور بعد میں ان کی ماں (س) نے خود بھی ٹینکی میں چھلانگ لگا کر خودکشی کی کوشش کی تاہم اہل محلہ نے اسے ٹینکی سے زندہ نکال لیا۔‘‘

محمد خان نے بتایا کہ ان کی بیوی گھریلو حالات سے خوش نہیں تھی اور غربت کی وجہ سے بھی پریشان رہتی تھی۔

انہوں نے مزید بتایا، ’’میں نے گھر میں کبھی کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دی ہے۔ ہر ممکن کوشش کی ہے کہ بچوں کی تمام ضرورتیں پوری ہوں لیکن مہنگائی کی وجہ سے شاید میں تمام ضرورتیں پوری نہیں کر پا رہا تھا۔ اس لئے بیوی مجھ سے ناراض تھی اور شاید یہی وجہ ہےکہ میرا گھر تباہ کر ہو گیا۔ مجھ سے وہ میرا سب کچھ چھین چکی ہے۔‘‘

متاثرہ بچیوں کی دادی نے بتایا ہے کہ جس وقت گھر میں یہ واقعہ پیش آیا اس وقت بچیوں کی ماں کے علاوہ گھر میں کوئی اور موجود نہیں تھا، ’’ میں آج گھر سے باہر خریداری کے لئے بازار گئی ہوئی تھی، واپس آئی تو گھر میں کہرام مچا ہوا تھا۔ میری بہو کو نفسیاتی بیماری بھی لاحق تھی تاہم اس واقعے سے قبل انہوں نے کبھی اپنے آپ کو نقصان نہیں پہنچایا تھا۔ اللہ کرے اب اس کی ہی جان بچ جائے۔‘‘

واقعے کے ایک عینی شاہد محمد اسلم جو کہ جائے واردات کے قریب ہی رہائش پذیر ہے، نے بتایا کہ انہیں بچیوں کی چیخ و پکار کی وجہ سے اس حادثے کا پتہ چلا، ’’محمد خان کے گھر میں بچیوں کی بہت چیخ و پکار تھی، میں نے اہلیہ کو ان کے گھر بھیجا لیکن گھر کا دروازہ بند تھا۔ اس لئے وہ اندر نہ جا سکی، بعد میں بچیوں کی چیخ و پکار رک گئی۔ ہم دروازہ توڑ کر دیگر اہل محلہ کے ہمراہ گھر میں داخل ہوئے تو ٹینکی میں بچیوں کی تو موت واقع ہو گئی تھی لیکن ان کی ماں بے ہوش تھی، اس لئے ہم نے ایدھی سینٹرکو اطلاع دی، جن کے رضاکاروں نے بعد میں لاشیں ٹینکی سے نکالیں اور انہیں ہسپتال منتقل کیا۔‘‘

ایئرپورٹ پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمہ ہسپتال میں انتہائی نگہداشت وارڈ میں زیر علاج ہے اور فی الوقت وہ بے ہوش ہے۔ اس لئے مزید کارروائی کے لئے پوسٹ مارٹم رپورٹ کا انتظار کیا جائے گا۔