1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’حکم مانو، ورنہ مشکل اٹھاؤ‘، ایرانی فلمسازوں کی مشکلات

4 فروری 2011

برلینالے کی جیوری گولڈن بیئر کے اعزاز کے لیے سولہ فلموں میں سےکسی ایک کا انتخاب کرے گی۔ جیوری کی قیادت اداکارہ ایزابیلا روسیلینی کریں گی اور ایرانی فلمسازجعفر پناہی بھی اس جیوری میں شامل ہیں۔

https://p.dw.com/p/10AZV
منجیح حکمت اور جعفر پناہی کا شمار ایران کے معروف فلمسازوں میں ہوتا ہےتصویر: DW/picture-alliance/dpa

برلینالے بین الاقوامی فلمی میلے میں جعفر پناہی کے علاوہ کئی ایرانی فلمساز بھی اپنی فلموں کے ساتھ اس میں میلے میں شریک ہو رہے ہیں۔ تاہم کئی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ ایرانی فلمیں تو برلن پہنچ جاتی ہیں لیکن فلمساز اور ہدایت کاروں کے بجائے ان کا کوئی نہ کوئی متبادل وہاں موجود ہوتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تہران حکام کا دیگر شعبوں کی طرح فلم انڈسٹری پر کنٹرول ہے۔

اس مرتبہ برلینالے فلم فیسٹیول کی جیوری میں معروف ایرانی فلمساز اور ہدایت کار جعفر پناہی بھی شامل ہیں۔ تاہم ایران میں انہیں چھ سال قید کی سزا سنائی جا چکی ہے۔ اس بارے میں فیسٹیول کے سربراہ ڈیٹر کُوسلِک کو امید ہے کہ تہران حکام جعفر پناہی کو فیسٹیول میں شرکت کرنے کی اجازت دے دیں گے۔’’ ہمیں اس بات کا اندازہ ہے کہ ہمیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس فیسٹیول میں اور بھی ایرانی فلم ساز اور فلم انڈسٹری سے منسلک افراد شرکت کریں گے۔ ایرانی فلم انڈسٹری اور فلم اسکولوں سے ہمارے مراسم بہت اچھے ہیں۔ بہرحال ہم امید کرتے ہیں کہ سب کچھ ویسے ہی ہوگا، جیسا ہم نے سوچا ہے‘‘۔

Deutschland Berlinale Jury der 58. Berlinale Shu Qi aus Taiwan
جیوری گولڈن بیئر کے اعزاز کے لیے سولہ فلموں میں سےکسی ایک کا انتخاب کرے گیتصویر: AP

ایران میں حکومت مخالف فلمسازوں کے لیے کام کرنا بہت مشکل ہے۔ ان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ افسر شاہی اور سرکاری حلقوں میں پائی جانے والی سوچ ہے۔ وزارت ثقافت سے کسی بھی فلم کی اجازت حاصل کرنے کے لیے بھی بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔

جعفر پناہی کو حکومت کی مخالفت کرنے پر چھ سال قید کی سزا سنائی گئی ہے اور ساتھ ہی ان پر یہ پابندی بھی عائد کر دی گئی ہے کہ وہ اگلے بیس برسوں تک فلمسازی نہیں کر سکتے۔ اس کے علاوہ پناہی نہ کچھ لکھ سکتے ہیں اور نہ ہی ایرانی وزارت خارجہ کی اجازت کے بغیر انہیں انٹرویو دینے اور نہ ہی ایران سے باہر جانے کی اجازت ہے۔ پناہی کا اس بارے میں کہنا تھا کہ’’ کسی فلم کا اسکرپٹ لکھنا یا دیگرادبی سرگرمیوں کا معطل کیا جانا تو میں سمجھ سکتا ہوں، لیکن ایران سے باہر جانے پر پابندی، یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی‘‘۔

کیا صرف ایران وہ واحد ملک ہے، جہاں کے فلمسازوں کو اس فیسٹیول میں شرکت کرنے سے روکا جاتا ہے؟ اس بارے میں ڈیٹر کوسلِک کا کہنا تھا کہ اس فہرست میں صرف ایران ہی شامل نہیں ہے۔ ’’ہمیں ہر سال مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہر مرتبہ سیاست درمیان میں آتی ہے، جیسا کہ چین میں ایک تو سنسر بورڈ مسائل کھڑے کرتا ہے اور اگر کوئی فلمساز اپنی فلم بغر سنسر کے پیش کرے تو اس پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔ اس طرح کے بیشتر مسائل ہمیں گھیرے رکھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی فلم برلن لائی جاتی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس فلم کو فیسٹیول میں شامل ہونا چاہیے، تو ہم اسے دکھانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں‘‘۔

Berlinale 2011 Plakat 1951
برلینالے فلم فیسٹیول 1951ء سے منعقد ہو رہا ہےتصویر: Internationale Filmfestspiele Berlin

ایران میں اگر کوئی فلمساز ایک ایسی فلم بنانا چاہتا ہے، جس کا موضوع حکومت مخالف ہو، تو اسے اپنے ارادے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر وہ اپنے ارادے میں کامیاب ہو بھی جائے تو بھی اس کے سر پر جیسے تلوار لٹکتی رہتی ہے۔ یہ صورتحال2009ء کے متنازعہ صدارتی انتخابات کے بعد سے مزید تشویشناک ہو گئی ہے۔ اس حوالے سے ایرانی ہدایت کاراصغر فرہادی کا کہنا تھا، جو کبھی بہت آسان نہیں ہوا کرتا تھا، اب وہ ایک بیزار کن موضوع بن گیا ہے۔ فرہادی کی ایک فلم اگلے ہفتے برلینالے فلم فیسٹیول میں شامل ہو گی۔

ایک اور ایرانی فلمساز ناصر تقوی کا کہنا ہے، ’’ایسے ملک میں، جہاں سنسر کی پابندیاں سخت ہوں، وہاں بغیر کچھ کہے ہی، اپنی من پسند بات دکھائی اورسمجھائی جا سکتی ہے۔‘‘

برلینالے کی انتظامیہ کو امید تو ہے کہ جعفر پناہی اس میں شرکت کر سکیں گے تاہم اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ایک معجزہ ہو گا۔

رپورٹ: عدنان اسحاق

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں