1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خاتون کی پینٹنگ کے پیچھے ایک اور چہرہ پوشیدہ

افسر اعوان5 اگست 2016

طاقتور ایکسرے تکنیک کے ذریعے فرانس کے تاثر پسند پینٹر ایڈگر ڈیگا کی ایک مشہور پینٹنگ کے نیچے پوشیدہ ایک اور پورٹریٹ کی تصدیق ہو گئی ہے۔ اس طرح وہ راز اب افشا ہو گیا ہے، جس نے آرٹ کی دنیا کو کئی دہائیوں تک مشکل میں رکھا۔

https://p.dw.com/p/1Jc7I
تصویر: picture-alliance/dpa/Australian Synchrotron via AP

آن لائن تحقیقی جریدے ’سائنٹیفک رپورٹس‘ میں رواں ہفتے شائع ہونے ایک آرٹیکل میں بتایا گیا ہے کہ ایڈگر ڈیگا کی معروف پینٹنگ ’پورٹریٹ آف اے وومین‘ کے نیچے دراصل ایک اور خاتون کا چہرہ پوشیدہ ہے۔ آسٹریلوی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ دراصل ’ایما ڈوبِگنی‘ ہیں،جو ڈیگا کی پسندیدہ ماڈلز میں سے ایک تھیں۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق قریب ایک صدی قبل سے ماہرین کو یہ اندازہ ہے کہ ڈیگا نے اپنی یہ معروف پینٹنگ دراصل اپنی ہی پینٹ کردہ اپنی ایک اور تصویر کے اوپر بنائی تھی۔ انہوں نے یہ پینٹنگ 1876ء اور 1880ء کے درمیان کسی وقت بنائی تھی۔ جیسے جیسے یہ پینٹنگ پرانی ہوتی گئی تو پینٹ کی اوپری پرتوں کے نیچے سے ایک اور تصویر کا دھندلا سا خاکہ دکھائی دینے لگا، جو بظاہر ایک اور خاتون کا چہرہ محسوس ہوتا تھا۔

ایڈگر ڈیگا کی پینٹنگ ’پورٹریٹ آف اے وومین‘ آسٹریلوی شہر میلبورن میں واقع نیشنل گیلری آف وکٹوریا میں موجود ہے۔ اس گیلری کے حکام یہ جاننا چاہتے تھے کہ اس پینٹنگ کے نیچے کیا پوشیدہ ہے۔ لیکن روایتی ایکسرے کا طریقہٴ کار یا بالائے بنفشی یا انفرا ریڈ فوٹو گرافی اس قدر طاقتور نہیں تھے کہ وہ یہ تفصیلات واضح کر سکتے۔

اس مقصد کے لیے ’ہائی ڈیفینیشن ایکسرے بِیم‘ کا استعمال کیا گیا، جو ایک پارٹیکل ایکسلریٹر کے ذریعے حاصل کی گئی
اس مقصد کے لیے ’ہائی ڈیفینیشن ایکسرے بِیم‘ کا استعمال کیا گیا، جو ایک پارٹیکل ایکسلریٹر کے ذریعے حاصل کی گئیتصویر: picture-alliance/dpa/D.Thurrowgood

لہٰذا اس گیلری نے آسٹریلیا کے تحقیقی ادارے ’آسٹریلین سِنکروٹون‘ کے ماہرین کے ساتھ مل کر یہ عقدہ حل کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان ماہرین نے اس پینٹنگ کا تفصیلی اسکین کیا جس پر 33 گھنٹے کا وقت صَرف ہوا۔ اس مقصد کے لیے ’ہائی ڈیفینیشن ایکسرے بِیم‘ کا استعمال کیا گیا، جو ایک پارٹیکل ایکسلریٹر کے ذریعے حاصل کی گئی۔ اس پارٹیکل ایکسلریٹر کو سِنکوٹرون کا نام دیا گیا ہے۔ سِنکوٹرون الیکٹرانز کو اس حد تک رفتار دے دیتے ہیں کہ اس سے سورج سے حاصل ہونے والی روشنی کے مقابلے میں ایک ملین گنا زیادہ طاقتور روشنی حاصل ہوتی ہے۔

یہ طریقہٴ کار اس حد تک کامیاب ثابت ہوا کہ سائنسدان اس پوشیدہ خاکے کی تمام تر تفصیلات دیکھنے کے قابل ہو گئے۔ آسٹریلین سِنکوٹرون کے ایک سائنسدان ڈیرل ہاورڈ کے مطابق، ’’ہم پینٹنگ کے نیچے پوشیدہ ایک خاتون کے خاکے کی توقع کر رہے تھے، مگر اس حد تک تفصیلی خاکے کی نہیں، جو ہمیں حاصل ہوا۔‘‘