1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خامنہ ائی کا پرتشدد مظاہروں کے خاتمے پر زور

رپورٹ: ندیم گل، ادارت: گوہرنذیر20 جون 2009

ایرانیوں کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ائی نے انتخابی نتائج کے خلاف مظاہروں کے فوری خاتمے پر زور دیا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ مزید جانی نقصان ہوا تو اس کی ذمہ داری مظاہروں کی قیادت کرنے والوں پر عائد ہوگی۔

https://p.dw.com/p/IV1w
آیت اللہ خامنہ ائیتصویر: AP

خامنہ ائی نے تہران یونیورسٹی میں نماز جمعہ کے خطبہ کے دوران کہا کہ حالیہ انتخابات ’’آزادانہ اور شفاف‘‘ تھے۔ انہوں نے عوام کو باہمی سمجھوتے اور امن برقرار رکھنے کے کی تلقین کی ہے۔تاہم ان کی جانب سے سخت تنبیہہ سے پہلے ہفتہ کی شام تہران میں ایک احتجاجی ریلی کا اعلان کیا گیا تھا، جس کی منسوخی کی اطلاع نہیں ہے۔ صدارتی انتخابات میں شکست کا سامنا کرنے والے امیدوار میر حسین موسوی کے ایک اتحادی نے خبررساں ادارے روئٹرز کو بتایا ہے کہ موسوی نے اپنے حامیوں کو دوبارہ سڑکوں پر آنے کے لئے نہیں کہا۔

Iran Wahlen Mir Hussein Mussawi nach Stimmabgabe in Teheran
میرحسین موسویتصویر: AP

دوسری جانب ایرانی مجلس شوریٰ کا ایک غیرمعمولی اجلاس آج ہفتہ کو ہورہا ہے جس میں 12جون کے صدارتی انتخابات میں ہارنے والے امیدواروں کو طلب کیا گیا ہے۔ اجلاس میں ان کی جانب سے کی گئی شکایات پر غور کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ موسوی اور دیگر امیدواروں نے انتخابی نتائج کی منسوخی کا مطالبہ کیا تھا۔

امریکی صدر باراک اوباما نے آیت اللہ خامنہ ائی کے تازہ بیانات کے ردّعمل میں ایرانی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے مظاہرین پر تشّدد کی مذمت کی ہے۔ وائٹ ہاؤس کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ ایران کے شہریوں کو احتجاج کرنے کی آزادی ہونی چاہئے۔

Iran Mousavi Anhängerin
مظاہرے میں شریک موسوی کی ایک حمایتیتصویر: AP

برطانیہ نے خامنہ ائی کی جانب سے لندن مخالف بیان پر ایرانی سفیر کو طلب کر لیا ہے جبکہ برطانوی وزیر اعظم گورڈن براؤن نے کہا کہ ایرانی عوام ہی اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ سابق ایرانی وزیر اعظم اور ناکام صدارتی امیدوار میر حسین موسوی کی جانب سے صدارتی انتخابات میں دھاندلی اور بے ضابطگیوں کے الزام پر ایران میں 1979ء کے اسلامی انقلاب کے بعد سے بدترین احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔

ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق ان مظاہروں کے دوران سات تا آٹھ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ دریں اثنا ان ان مظاہروں سے پیدا ہونے والی صورت حال کے نتیجے میں متعدد سیاسی کارکنوں کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ ملکی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ پر سخت پابندیاں بھی عائد کی گئیں۔

سرکاری انتخابی نتائج کے مطابق احمدی نژاد کو 63 فیصد جبکہ موسوی کو تقریبا 33 فیصد ووٹ ملے۔ ایران میں کل 46 ملین رائے دہندگان ہیں۔

Mahmud Ahmadinedschad - Iran
ایرانی صدر احمدی نژادتصویر: AP

بعض سیاسی تجزیہ کاراحمدی نژاد کے دوبارہ انتخاب کو ان مغربی طاقتوں کے لئے مایوس کن قرار دے رہے ہیں، جو ایران کو اپنا جوہری پروگرام روکنے پر قائل کرنے کی کوشش میں لگے ہیں۔

52 سالہ احمدی نژاد نے چار سال قبل 1979ء کے اسلامی انقلاب کی بحالی کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے تیل برآمد کرنے والے دُنیا کے چوتھے بڑے ملک کی صدارت کا منصب سنبھالا تھا۔ نژاد نے ملک کے جوہری پروگرام کی توسیع کی، ان مغربی الزامات کو رد کیا کہ اس منصوبے کا مقصد جوہری ہتھیاروں کی تیاری ہے۔ نازی دور میں یہودیوں کے قتل عام یعنی ’ہولوکوسٹ‘ کا انکار اور اسرائیل کے خلاف سخت بیانات کے ذریعے بھی احمدی نژاد نے عالمی طاقتوں کو ناراض کیا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید