1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خواجہ آصف کا دورہء ایران،کیا بڑھتے ہوئے تعاون کا عکاس ہے؟

عبدالستار، اسلام آباد
11 ستمبر 2017

پاکستان کے وزیرِ خارجہ خواجہ آصف کے دورہ ء ایران کو تجزیہ نگاروں کی طرف سے بہت اہمیت دی جا رہی ہے اور کئی مبصرین اس دورے کو خطے کے ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے تعاون کا عکاس قرار دے رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2jjHf
تصویر: picturealliance/AP Photo/A. Naveed

خواجہ آصف چار ملکی دورے پر ہیں، جس کا مقصد امریکی صدر ٹرمپ کی افغان پالیسی پر صلا ح ومشورہ کرنا ہے۔ جب کہ آج انہوں نے ایرانی صدر حسن روحانی، وزیر خارجہ جواد ظریف   اور نائب صدر برائے معاشی امور محمد نہاوندیان سے بھی ملاقاتیں کیں۔ ایران کے بعد خواجہ آصف ترکی اور روس بھی جائیں گے۔
پاکستان میں کئی مبصرین کا خیال ہے کہ خطے کے تمام ممالک کو امریکی مخاصمت کا سامنا ہے۔ ٹرمپ کی پالیسی سے تہران، بیجنگ، ماسکو اور اسلام آباد سب ناراض نظر آتے ہیں اور اس ناراضگی نے خطے کے ممالک کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ امریکی اثر ورسوخ کو کم کرنے کے لیے متحد ہوں اور خطے کے مسائل خود حل کریں۔
کراچی یونیورسٹی کے شعبہء بین الاقوامی تعلقات کی سابق چیئر پرسن طلعت اے وزارت نے اس دورے پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میرے خیال سے یہ بہت مثبت قدم ہے اور یہ اس بات کا اشارہ بھی ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی سمت تبدیل ہورہی ہے اور وہ اب زیادہ خطے کے ممالک کو جوڑنے اور انہیں قریب لانے پر مر کوز ہے۔ پاکستان کو دوسروں کی جنگ سے نکلنا چاہیے۔ ملک کے اندر دہشت گردی کا خاتمہ کرنا چاہیے اور سی پیک پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔‘‘

پاکستانی وزیرِ خارجہ پہلے ہی چین کا دورہ کر چکے ہیں
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schiefelbein

 

 

پاکستان اور ایران بارڈر سکیورٹی بڑھانے پر متفق

پاکستان کی طرف سے ایران کو منانے کی کوششیں

ان کا کہنا تھا کہ ایران اور پاکستان کے درمیان غلط فہمیاں ختم ہونی چاہییں، ’’گوادر کی بندر گاہ کو چین نے تعمیر کیا ہے جب کہ چاہ بہار کی بندر گاہ بھارت نے تعمیر کی ہے۔ ایران میں بھارتی موجودگی کی وجہ سے پاکستان کو تحفظات تھے۔ کلبھوشن بھی وہیں تھا۔ لیکن پاکستان کو چاہیے کہ وہ ایران کو سی پیک کا حصہ بنانے کی کوشش کرے، اس میں ایران کا فائدہ بھی ہے اور پاکستان کا بھی‘‘۔
سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات میں توازن قائم کرنے کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال پر انہوں نے کہا، ’’اس توازن کو قائم کرنا بہت بڑا چیلنج ہے لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ سعودی عرب یا ایران ہماری مدد کو نہیں آئے گا۔ ہمیں اپنے مسئلے خود حل کرنے پڑیں گے۔ ریاض یمن کی جنگ میں مصروف ہے، جس میں ہم نے فریق نہ بن کر بہت دانشمندی کا ثبوت دیا۔ سعودی عرب اس وجہ سے بھی ہماری مدد نہیں کر سکتا کیونکہ وہ امریکا کے زیر اثر ہے۔ لہذا ہمیں خطے کے ممالک سے تعلقات مضبوط کرنے چاہیے۔ بھارت اور امریکا کو افغانستان کے استحکام میں کوئی دلچسپی نہیں لیکن ایران، پاکستان، روس اور چین یہاں استحکام چاہتے ہیں۔ اس لیے ان ممالک کو مل کر کام کرنا چاہیے۔‘‘

سعودی عرب فوج بھیجنے سے کیا ملک میں فرقہ واریت بڑھے گی؟

ایران کے لیے جاسوسی کا الزام، جرمنی میں پاکستانی گرفتار

دفاعی تجزیہ نگار کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے اس دورے پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’سعودی عرب سے ہمارے اچھے تعلقات ہیں لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ایران وہ پہلا ملک تھا جس نے ہماری یواین میں رکنیت کی حمایت کی۔ ہمیں مشرف کے دور کی طرح امریکیوں کے قدموں میں نہیں گرنا چاہیے اور یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم اپنی سرزمین ایران یا کسی اور ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دینگے۔ خواجہ آصف کا دورہ اس بات کا عکاس ہے کہ پاکستان خطے میں تنہا نہیں ہیں۔ ہمیں ایران، ترکی، روس اور چین سے مشورہ کرنا چاہیے اور ٹرمپ کی دھمکیوں سے مرعوب نہیں ہونا چاہیے۔ ان کا دورہ اس بات کا اشارہ ہے کہ خطے میں امریکی اثر ورسوخ کم ہونے جا رہا ہے۔‘‘